پاکستان کے ایوان بالا نے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے سے متعلق ایک بل شدید مخالفت کے باوجود منظور کر لیا ہے جس کے تحت 18 سال سے کم عمری کی شادی پر دو لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔
سینیٹ میں یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شیری رحمان نے پیش کیا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 21 فیصد شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہی کر دی جاتی ہیں۔
اس سلسلے میں قانون سازی ضروری تھی لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے کی روایتی سوچ بدلے بغیر کیا اس پر عمل درآمد ممکن ہے؟
سینیٹ میں بھی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف سمیت مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔
گو کہ وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کھل کر تو اس بل کی مخالفت نہیں کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ 'اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلے کرنا ہوں گے۔'
سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ 'شادی کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے، اس کے لیے عمر کی حد مقرر نہیں کی جا سکتی‘ جب کہ سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے اسے 'حساس' معاملہ قرار دیا اور کہا کہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔'
مذہبی حلقوں کی تنقید کے باوجود حقوق انسانی کی تنظیموں نے قانون سازی کو ایک مثبت اقدام قرار دیا ہے۔
ہیومین رائٹس کمشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اسد اقبال بٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ' کمر عمری کی شادی ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے لیے خوشی کا باعث تو ہوتی ہو گی لیکن اس کی سزا لڑکیوں کو بھگتنا پڑتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ ماں بنتی ہیں۔
اسد اقبال کا کہنا تھا کہ ’بچیوں کی کم عمری کی شادی کی بڑی وجوہات غربت اور معاشرتی روایات بھی ہیں، جن کے تحت لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور جلد از جلد یہ بوجھ اتارنے کے لیے شادی کو سب سے بڑا حل سمجھ لیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کما کر تو لا نہیں سکتی پھر اسے پڑھانے لکھانے کی بجائے بیاہ دو، پیسے بچ جائیں گے۔'
کراچی میں واقع دارالعلوم کورنگی سے فارغ التحصیل مولانا محبوب الٰہی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شادی کے لیے دینی طور پر عمر کی کوئی قید نہیں البتہ بلوغت تک پہنچنا ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ شادی کی کم سے کم عمر مقرر کرنے کے اس قانون میں بلوغت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سندھ میں قانون موجود ہونے کے سبب اب 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیاں رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوغت کی عمر کے باوجود شادی نہ کرنے اور ایسی صورت میں بچوں سے گناہ سرزد ہو جانے کی ذمے داری والدین کے سر ہے۔ '
پاکستان کے علاوہ کئی دوسرے اسلامی ممالک میں بھی شادی کی کم سے کم عمر مقرر ہے۔
دوسرے ممالک میں شادی کی عمر کا قانون موجود ہونے کے بارے میں مولانا محبوب الٰہی نے کہا کہ دنیا کے معاشروں کو دیکھ کر اپنا معاشرہ ان کے مطابق کرنا معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان میں کم عمری کی شادی کی وجوہات میں تعلیم کی کمی اور آگاہی نہ ہونا بھی ہے۔ کم عمری کی شادی کے زیادہ تر واقعات شہروں کی بجائے دیہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دیا جائے کیونکہ تعلیم سے ہی خواتین کے بارے میں معاشرتی رویے تبدیل ہوں گے۔