- صحت کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو 80 سے زائد لاشیں واپس کی ہیں۔
- ان کا کہنا ہے کہ ان کی شناخت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔
- طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے۔
- اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حملے میں نائب وزیر اقتصادیات کو ہلاک کر دیا ۔
اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی میں مارے گئے 80 سے زیادہ فلسطینیوں کی لاشیں واپس کر دیں، جب کہ پیر کو اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 18 مزید افراد ہلاک ہوئے، یہ بات فلسطینی وزارت صحت نے بتائی۔
جنوبی غزہ میں خان یونس میں فلسطینی سول ایمرجینسی سروس کے ڈائریکٹر یامین ابو سلیمان نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ لاشیں فوج نے زمینی کارروائی کے دوران قبرستانوں سے کھود کر نکالی تھیں، یا یہ وہ قیدی تھے جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ماردیا گیاتھا۔"
سول ڈیفنس کے ڈائریکٹر یامین ابو سلیمان نے اے ایف پی کو بتایا، " ہمیں 15تھیلوں میں 80 لاشیں ملی ہیں جن میں سے ہر ایک بیگ میں، الگ چادر میں لپٹے چار سے زیادہ افراد تھے۔ "
ابو سلیمان نے کہا کہ اسرائیلی حکام نےلاشوں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ انہوں نےنہ تو ان کے نام بتائےہیں نہ یہ کہ وہ کہاں سے ملی تھیں یا کہاں سے لی گئی تھیں ۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ غزہ میں مارے گئے تھے یا (اسرائیل کی) جیلوں کے قیدی ہیں۔
جائے وقوع پر موجود اے ایف پی کے صحافیوں نے حفاظتی سوٹ میں ملبوس مردوں کو نیلے رنگ کے پلاسٹک کے تھیلوں میں چادروں میں لپٹی لاشوں کو وہاں لانے والےکنٹینر سے اتارنے جانے سےقبل ان کا معائنہ کرتے ہوئے دیکھا ۔
اس کے بعد لاشوں کو ریت میں کھودی گئی ایک اجتماعی قبر میں تدفین کے لیے ایک قطار میں رکھ دیا گیا،اس وقت بیسیوں فلسطینی انہیں دیکھ رہے تھے۔
خان یونس کے ایک قبرستان میں کارکن اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی فلسطینیوں کی لاشوں کی تدفین کر رہے ہیں ، فوٹو اے پی 5 اگست 2024
اے ایف پی کے صحافیوں نے بتایا کہ لاشوں کو بعد میں غزہ کے جنوبی مرکزی شہر خان یونس کے قریب ترک قبرستان میں دفن کیا گیا۔
اجتماعی قبر میں تدفین کیوں؟
ترک قبرستان سے متعلق تابش ابو عطا نےاے ایف پی سے کہا "آپ مجھ سے پوچھیں گےکہ میں نے ساری لاشیں ایک اجتماعی قبر میں کیوں دفن کیں؟ کیونکہ میرے پاس ہر ایک کو الگ الگ قبر میں دفن کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اس کے لیے پتھر یا ٹائلیں موجودنہیں ہیں۔"
|
ایک ماں کی اپنے بیٹے کی تلاش
شمال میں غزہ شہر سے تعلق رکھنے والی ایک بے گھر خاتون سلوا کاراز نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے 32 سالہ بیٹے مروان کو تلاش کرنے کی امید میں قبرستان گئی تھی جو جنوری میں لاپتہ ہو گیا تھا۔ جس نےاپنے پسماندگان میں آٹھ ماہ کا ایک بیٹا چھوڑا تھا۔
59 سالہ ماں نے اے ایف پی کو بتایا، "جب ہمیں معلوم ہوا کہ 80 لاشیں حوالے کر دی گئی ہیں، تو ہم ان کے درمیان اسے ڈھونڈنے کی امید میں یہاں آئے تھے۔"
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا،"ابھی تک، ہمیں اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا ہے ۔"
"ہم اس کے کپڑوں کی مدد سے اسے شناخت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس نے براؤن پینٹ، نیوی بلیو شرٹ، کالی جیکٹ اوربراؤن جوتے پہن رکھے تھے۔"
خاتون نے آخری بار اسے وسطی غزہ کے دیر البلاح میں ان کی پناہ گاہ سے سائیکل پر جاتےہوتے ہوئے دیکھا تھا ۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے بعد گرفتار فلسطینیوں کو اسرائیل میں تشدد اور ناروا سلوک کا سامنا ہے: اقوام متحدہ
حماس کا رد عمل
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں حماس نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے شناخت کے بغیر لاشیں پہنچانے سے ہلاک ہونے والوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے مصائب میں اضافہ ہوتا ہے، جو اپنے مغوی بچوں کا اتہ پتہ جاننا چاہتے ہیں یا مرنے والوں کو باوقار طریقے سے دفن کرنا چاہتے ہیں۔"
اس سے قبل دسمبرمیں حماس کے سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں مارے گئے 80 فلسطینیوں کی لاشیں مردہ خانوں اور قبروں سے یہ معلوم کرنے کےلیے لے جانے کے بعد واپس کی تھیں کہ ان میں کوئی یرغمال تو نہیں تھا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ لاشوں کو پھر غزہ میں دفن کیا گیا تھا۔
اسرائیل کا رد عمل
اسرائیلی فوج نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے بعد گرفتار فلسطینیوں کو اسرائیل میں تشدد اور ناروا سلوک کا سامنا ہے: اقوام متحدہ
غزہ میں جنگ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر اس دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوئی ، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے اعدادو شمار کی بنیاد پر کی گئی اے ایف پی کی گنتی کے مطابق 1,197 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر عام شہری تھے۔
عسکریت پسندوں نے 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا، جن میں سے 111 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں سے فوج کے مطابق 39 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ رپورٹ رائٹرز اور اے ایف پی کے مواد پر مبنی ہے۔
|
|