غزہ کے مظاہرین پر سخت کریک ڈاؤن کا ذمہ دار اسرائیل ہے: تفتیشی رپورٹ

فائل

جمعرات کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجوں نے پچھلے برس غزہ کے مظاہروں کے دوران ’’جان بوجھ کر شہریوں پر فائرنگ کی‘‘ اور یہ کہ ’’انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں‘‘۔

انسانی حقوق کی کونسل کی جانب سے تشکیل کردہ چھان بین کے آزاد کمیشن کے مطابق، اسرائیلی فوج کے چھپ کر وار کرنے والے دستے کی جانب سے چھ ہزار سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا اور باڑ کے قریب جمع مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ہتھیاروں کا مسلسل استعمال کیا گیا۔

اس پینل نے پچھلے برس مارچ میں شروع ہونے والے ان پرتشدد واقعات کی ویڈیوز دکھائیں، جن میں، بتایا گیا ہے کہ، مبینہ طور پر مظاہرین پر بہیمانہ فائرنگ دیکھی جا سکتی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس میں اسرائیل سے نفرت کی بنا پر منافقت اور جھوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں‘‘۔

اس تین رکنی پینل نے کہا ہےکہ جو لوگ ان مظاہروں کے دوران نشانہ بنائے گئے وہ کسی طور پر بھی فوری خطرہ نہیں تھے۔ پینل نے اسرائیل کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ان مظاہرین کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔

کمیشن کی رکن، بنگلہ دیشی وکیل سارہ حسین نے کہا ہے کہ ’’تیس مارچ سے لے کر اکتیس دسمبر تک 189 فلسطینیوں کو قتل کیا گیا، جن میں 183 کو ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔۔۔۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر بچوں، معذوروں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا‘‘۔

اس پینل نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ان واقعات کی معنی خیز تفتیش کی اجازت دے اور زخمیوں کو بہتر علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرے۔

کمیشن نے حماس کو بھی، جس کی غزہ پر حکومت ہے، اس بات کا ذمہ دار قرار دیا کہ انہوں نے غزہ کی جانب سے آگ لگی ہوئی پتنگوں کے استعمال پر پابندی عائد نہیں کی۔