غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر جمع ہونے والے مظاہرین پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے دو کم عمر لڑکوں سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
واقعے جمعے کو غزہ کی سرحد پر ہونے والے ہفتہ وار مظاہروں کے دوران پیش آیا جن کا سلسلہ گزشتہ چھ ماہ سے جاری ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور گھریلو ساختہ بموں کے حملوں کے جواب میں فائرنگ کی۔
اسرائیلی فوج نے مظاہرین کے پتھراؤ کے جواب میں غزہ پر فضائی حملہ کرنے کابھی اعتراف کیا ہے۔
غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ جمعے کو سرحد پر پانچ مختلف مقامات پر اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں 505 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 89 کو گولیاں لگی ہیں۔
فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فائرنگ سے کل سات مظاہرین مارے گئے جن میں 11 اور 14 سال کے دو لڑکے بھی شامل ہیں۔
غزہ کے رہائشیوں کی جانب سے اسرائیل کی سرحد پر ہر جمعے کو کیے جانے والے ان مظاہروں کا سلسلہ مارچ میں شروع ہوا تھا۔
مظاہرین اپنی ان آبائی زمینوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جہاں سے انہیں 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت زبردستی بے دخل کیا گیا تھا یا انہیں مجبوراً حالات کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی تھی۔
مظاہرین اسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
رواں سال مارچ سے جاری ان مظاہروں کے خلاف اسرائیلی فوج طاقت کا شدید استعمال کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 191 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔
مئی کے وسط میں مظاہرین پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک دن میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
غزہ کی پٹی 40 کلومیٹر طویل اور چھ سے 14 کلومیٹر چوڑی ہے جہاں 20 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے غزہ کا شمار دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔
اسرائیل اور مصر کی جانب سے گزشتہ 11 سال سے جاری علاقے کی سخت ناکہ بندی کے باعث غزہ کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اور علاقے میں روزگار کے مواقع ناپید اور بنیادی ضرورت کی اشیا کی بھی شدید قلت ہے۔