یروشلم میں ایک بار پھر مقدس مذہبی مقامات پر تصادم کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں شدت اختیار کرگئی ہیں۔
غزہ میں پر تشدد واقعات کے بعد ایک بار پھر اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان یروشلم میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ برس اسرائیل اور فسلطینیوں کے درمیان 11 روز تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد حالات معمول پر آگئے تھے لیکن رواں ہفتے غزہ سے راکٹ فائر ہونے کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بدھ اور جمعرات کو غزہ سے اسرائیل کی جانب دو راکٹ فائر کیے گئے جس کے بعد اسرائیل کی فضائیہ نے حماس کے زیرِ انتظام علاقے میں مشتبہ مقامات کو نشانہ بنایا۔
جمعرات کی صبح اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں فضائی کارروائیاں کیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق فضائی کارروائی میں ایک ایسی سرنگ کو نشانہ بنایا گیا جو راکٹ تیار کرنے کے لیے کیمیکل کے زیر زمین ذخیرے تک جاتی تھی۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ جمعرات کی صبح کئی نقاب پوش مظاہرین نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر اس کے دروازے بند کر دیے تھے اور وہاں سے پتھراؤ کرنا اور راکٹ برسانا شروع کردیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے فلسطینیوں کو ‘فساد پر قابو پانے کے طریقوں‘ کا استعمال کرکے منتشر کر دیا ہے البتہ وہ مسجد کے احاطے میں داخل نہیں ہوئی۔ پولیس نے اپنی کارروائی کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
مسجد کے انتظامات کرنے والے وقف کے فلسطینی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’اے پی‘ کو بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے اسٹین گرنیڈز اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا ہے۔فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق 20 افراد زخمی ہوئے جب کہ ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
رواں ہفتے میں متعدد بار فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان تصادم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن میں 150 فلسطینی اور اسرائیلی تین پولیس اہل کار زخمی ہوچکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
فلسطینی اسرائیلی پولیس پر مسجدِ اقصیٰ میں طاقت کا استعمال کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس نے خواتین سمیت غیر مسلح افراد پر بھی تشدد کیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں نے سیکیورٹی فورسز پر راکٹ اور آتشیں گولوں سے حملہ کرکے اشتعال انگیزی کی ہے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینی مظاہرین اشتعال انگیزی کر رہے ہیں اوروہ دوسروں کو خطرے میں ڈال کر اپنے ہی مقدس مقام کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔
کشیدگی کا آغاز کیسے ہوا؟
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق حالیہ کشیدگی کا آغاز 15 اپریل کو اس وقت ہوا جب یروشلم کے قدیم شہر میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں تصادم ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں کی تھیں۔
ان کارروائیوں کے بعد یروشلم میں روزانہ کی بنیادوں پر تصادم کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
تازہ کشیدگی ماہِ رمضان میں یہودیوں کے ہفتے بھر کی مقدس تعطیلات 'پاس اوور' کے دوران بڑھی،عیسائی بھی اس دوران ایسٹر کا تہوار منا رہے تھے جس کی وجہ سےہزاروں زائرین کرونا کی وبا کے بعد پہلی بار یروشلم کے پرانے شہر میں جمع ہوئے جو تینوں مذاہب کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔
پاس اوور کے دوران یہودیوں کی ایک بڑی تعداد عبادات کے لیے مذہبی مقامات کا رُخ کرتی ہے۔ انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسرائیلی پولیس کی نفری بھی موجود ہوتی ہے۔ فلسطینی پولیس کی حفاظت میں مذہبی اور قوم پرست یہودیوں کی مقدس مذہبی مقامات پر آنے کو ممکنہ طور پر قبۃ الصخرہ اور دیگر مقامات کے احاطے پر قبضے کی کوشش تصور کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی مقامات کے کنٹرول سے متعلق صورتِ حال کو جوں کا توں رکھنے کے حامی ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی فورسز ایک بار پھر مسجد اقصی کے احاطے میں داخل، کشیدگی میں اضافہ’اے پی‘ کے مطابق اسرائیل نے پاس اوور اور رمضان کے موقع پر کسی ممکنہ کشیدگی کو روکنے کے لیے منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن گزشتہ ماہ سے اسرائیل میں ہونے والی مسلح واقعات کی وجہ سے سے مغربی کنارے میں کارروائیاں کرنا پڑی تھی جس کے بعد سے دو طرفہ جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کے بیشتر علاقے کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ فلسطینی اپنی ریاست کے قیام کے مطالبے میں ان تینوں علاقوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔
اردن اور مصر نے مسجد میں حالیہ اقدامات کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں ممالک کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہے اور سلامتی کے معاملات میں ان کے مابین ہم آہنگی رہتی ہے۔ اردن نے اسرائیلی سفارت کار کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
ایک بیان کے مطابق اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ اس صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کے تمام غیر قانونی اور اشتعال انگیز اقدامات کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اردن اس معاملے پر دیگر عرب ریاستوں کا اجلاس طلب کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہے۔
اسرائیل گزشتہ سال سے اردن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے اور حال ہی میں دیگر کئی عرب ریاستوں کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو معمول پر لا چکا ہے البتہ حالیہ تناؤ نے فلسطین کے درینہ مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، اشتعال انگیز کارروائیوں اور بیان بازی سے گریز کریں اور مقدس مقام کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھیں۔
ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی حکام کشیدگی میں کمی کے لیے خطے کے تمام ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔