|
ویب ڈیسک__اپنے گھر کی دو منزلہ عمارت کے ملبے سے 11 سالہ محمد گری ہوئی چھت کے ٹکڑوں کو جمع کر رہا ہے جس کے بعد اس کے والد اس سے غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی قبر کے کتبے تیار کریں گے۔
محمد کے والد 42 سالہ شمائل ایک مستری ہیں۔ رواں برس اپریل میں اسرائیل نے خان یونس میں بمباری کی تو اس سے تباہ ہونے والے گھروں میں شمائل کا گھر بھی شامل تھا۔ شمائل اپنے گھر کے ملبے سے سریہ اور ملبہ وغیرہ لینے آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم اس ملبے سے گھر نہیں قبریں بناتے ہیں۔ ان کے بقول’’یہ ایک المیے سے دوسرے کا سفر ہے۔‘‘
یہ کام تھکا دینے والا تو ہے لیکن کبھی کبھی افسردہ بھی کر دیتا ہے۔ مارچ میں شمائل نے اپنے گھر کی انہیں باقیات سے اپنے بیٹے اسماعیل کی قبر تیار کی تھی جو بمباری کی زد میں آگیا تھا۔
وہیں یہ غزہ میں دور دور تک پھیلے اس ملبے کے ڈھیر کو سمیٹنے کی کوششں کا ایک چھوٹا سا آغاز بھی ہے جو فلسطینی تنظیم حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی بمباری سے وجود میں آیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں اس وقت چار کروڑ 20 لاکھ ٹن سے زائد ملبہ ہے جس میں پوری طرح تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ساتھ بری طرح متاثر ہونے والے عمارتیں بھی شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ملبے کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس سے مصر میں جیزہ کے سب سے بڑے ہرم کو 11 مرتبہ بھرا جا سکتا ہے اور اس ملبے میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے تین عہدے داروں کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ ملبہ اٹھانے کے لیے غزہ کے حکام کی مدد کی کوشش کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ڈیبریز مینجمنٹ ورکنگ گروپ نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر خان یونس اور وسطی غزہ کے دیر البلح علاقے میں ملبے کی صفائی کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے غزہ آفس کے سربراہ الیسینڈرو مراکک کا کہنا ہے کہ یہ چیلنج بہت بڑا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا آپریشن ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی اہم یہ ہے کہ ہمیں فوری کام شروع کرنا پڑے گا۔
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجو عام شہریوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور جہاں بھی یہ سامنے آتے ہیں انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے اور شہریوں کو نقصان سے بچانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔
غزہ کے ملبے پر اسرائیلی فوج کے متعلقہ یونٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملبے اور ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے ابتدائی کو آرڈینیشن تو بہت اچھی ہے لیکن مستقبل کے منصوبوں پر بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
ملبے میں ٹھکانہ
اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ میں کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 250 کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔
فلسطینی حکام کے مطابق غزہ میں شروع ہونے والی جنگ میں اب تک تقریباً 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ میں ہر جانب ملبے کے ڈھیر ہیں جن میں پیدل چلنے والوں اور گدھا گاڑیوں کی چھوٹی چھوٹی راہدریاں بنی ہوئی ہیں جن سے دھول اڑتی رہتی ہے۔ یہی پہلے مصروف پکی سڑکیں ہوا کرتی تھیں۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور یسری ابو شباب کا کہنا ہے کہ کون یہاں آ کر یہ ملبہ ہٹائے گا؟ کوئی نہیں۔ اس لیے ہم نے خود ہی یہ کام شروع کر دیا ہے۔
ابو شباب نے خان یونس میں اپنے تباہ شدہ گھر کا اچھا خاصا ملبہ صاف کر کے وہاں خیمہ لگا لیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق جنگ سے قبل غزہ کی ایک لاکھ 63 ہزار عمارتوں میں سے دو تہائی یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا شدید متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کثیر منزلہ عمارتیں تھی۔
غزہ میں 2014 میں سات ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد یو این ڈی پی اور اس کے شراکت داروں نے 30 لاکھ ٹن ملبہ صاف کیا تھا جو موجودہ مقدار کا صرف سات فی صد بنتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ ٹن ملبے کی صفائی پر کم از کم 28 کروڑ ڈالر خرچ آئے گا۔ اس طرح غزہ سے ملبے کی مکمل صفائی کے لیے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر سے زیادہ خرچ آئے گا اور وہ بھی اس صورت میں اگر جنگ فوری طور پر روک دی جائے۔
اپریل میں اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ ایک اندازے کے مطابق اس ملبے کو ہٹانے کے لیے 14 سال کی مدت درکار ہو گی۔
ملبے میں دبی لاشیں
فلسطینی حکامِ صحت کے مطابق ملبے کے نیچے لگ بھگ 10 ہزار لاشیں دبی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ اس میں کئی بم بھی موجود ہیں جو پھٹے نہیں ہے۔
کئی فلسطینی عمارتوں کے ملبوں یا ڈھانچوں کے اندر بھی پناہ گزین ہیں جو خطرناک ہے کیوں کہ کسی بھی وجہ سے بھاری بھرکم عمارتی ملبہ گرنے سے یہ لوگ شدید زخمی ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس ملبے سے اٹھنے والی دھول میں تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کے ایسے اجزا بھی شامل ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر سمیت موذی امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان بسمہ اکبر کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی اور فضا کی وجہ سے صحت کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار کے مطابق معالجین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملبے سے ہونے والی آلودگی کے باعث آنے والے برسوں میں کینسر اور پیدائشی معذوریوں سمیت کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملبے میں سانپ اور بچھو سے اموات کے علاوہ دیگر حشرات کے کاٹنے سے ہونے والے انفیکشنز کا بھی خطرہ ہے۔
وسائل کی کمی
ماضی میں غزہ سے اٹھایا گیا ملبہ بندرگاوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہوا تھا۔ اقوامِ متحدہ کو توقع ہے کہ اس ملبے کو ری سائیکل کرنے کے لیے اس کا کچھ حصہ سڑکوں کی تعمیر اور کچھ ساحلی پٹی پر پشتے وغیرہ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
جنگ سے قبل کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی کل آبادی 23 لاکھ ہے جو 45 کلو میٹر لمبی اور 10 کلو میٹر چوڑی اس پٹی میں رہتی ہے۔ تاہم ملبے کی وجہ سے ان کے لیے جگہ مزید تنگ ہو گئی ہے اور اس لیے بھی ملبہ ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔
غزہ میں موجود لینڈ فل سائٹس اسرائیل کے ملٹری زونز میں ہیں اور فوج کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس علاقے تک رسائی دی جا سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ری سائیکلنگ کے لیے بھاری مشینری اور سرمایہ درکار ہو گا۔ اس کے علاوہ کام کی رفتار میں بھی رکاوٹیں آئیں گی کیوں کہ ملبہ لے جانے والے ٹرکوں کو بھی اسرائیلی فوج کی بنائی گئی کراسنگز سے گزرنا پڑے گا۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پابندیوں کے باعث ایندھن اور مشینری کی کمی ہے جس کی وجہ سے ملبے کی صفائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اسرائیلی حکام سے اجازت نامے منظور کرانے کا عمل بھی بہت لمبا ہے جس میں بہت وقت لگتا ہے۔
اسرائیل نے مشینری وغیرہ پر پابندیوں کے الزامات کا واضح جواب نہیں دیا ہے۔
اقوام، متحدہ کے مطابق ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی جگہ سے ملبہ ہٹانے کے لیے متاثرہ عمارت کے قانونی مالک کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔
لیکن غزہ میں جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہوئی ہے اس نے جائیدادوں کی حدود کو دھندلا دیا ہے اور جنگ کے باعث کئی لوگوں کے پاس جائیداد کے کاغذات بھی دستیاب نہیں ہیں۔
فلسطینی حکومت کی دعوت پر 12 اگست کو مغربی کنارے میں ہونے والے ایک اجلاس میں کئی ڈونرز نے ملبے کی صفائی کے کام میں مدد کی پیش کش کی ہے۔
تاہم اقوامِ متحدہ کے ایک اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ڈونرز اس بارے میں پریشان ہیں کہ اگر مسئلے کا کوئی سیاسی حل نہیں نکلتا تو غزہ کی تعمیر نو پر سرمایہ لگانا بھی چاہیے یا نہیں؟
اس تحریر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔