جرمنی کی وزارت خارجہ کےجمعرات کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین مہینوں میں جرمنی نے اسرائیل کو 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی فوجی برآمدات کی اجازت دی ہے۔ یہ اجازت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب ان ہتھیاروں کے غزہ جنگ میں ممکنہ استعمال کو انسانی حقوق کے گروپوں نے قانونی طور پرچیلنج کیا ہے۔
بائیں بازو کے قانون ساز سیوم ڈیگڈیلن(Sevim Dagdelen) کی پارلیمان میں انکوائری پر حکومت کے جواب کے مطابق، جرمنی نے اگست 2024 سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے، 101.61 ملین ڈالرکی منظوری دی ہے۔
نئے اجازت نامے اس سال کی پہلی ششماہی میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات میں نمایاں کمی کے بعد دیے گئے ہیں۔
آئینی اور انسانی حقوق کے یورپی مرکز (ECCHR) نے جمعرات کو کہا کہ اس نے غزہ کے ایک رہائشی کی جانب سے فرینکفرٹ کی انتظامی عدالت میں ایک اپیل دائر کی ہے، جو جرمنی کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی مزید برآمدات سے روکنے کی کوشش ہے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ جرمن ہتھیار غزہ میں شہریوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مدعی کا جو غزہ کا رہائشی ہے اور جس نے اسرائیلی فضائی حملوں میں اپنی بیوی اور بیٹی کو کھو دیا ہے، کہنا ہے کہ اسلحے کی جاری ترسیل، اس کی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، اور اس نےجرمنی سے ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ECCHR نے کہا کہ اس اپیل کا مقصدجرمنی کے فیڈرل آفس آف اکنامکس اینڈ ایکسپورٹ کنٹرول (BAFA)، کی توجہ جرمنی کی ایسی فوجی برآمدات کی منظوری پر مرکوز کروانا ہے جو کہ تنازعات میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ اس میں جرمن دفاعی فرم Renk Group AG، کے ٹینکوں کے پرزے بھی شامل ہیں۔ یہ فرم اسرائیل کے مرکاوا ٹینکوں کے اجزاء فراہم کرتی ہے۔
رینک گروپ اے جی اور جرمنی کی وزارت اقتصادیات بھی اس نئے کیس پر تبصرہ کرنے کے لیے فوری طور پر دستیاب نہیں تھے۔
جرمن حکومت نے اس سے پہلے کہا ہے کہ وہ اسلحے کی ہر برآمد کا انفرادی طور پر جائزہ لیتی ہے اور انسانی حقوق اور انسانی قانون سمیت متعدد عوامل کو مدنظر رکھتی ہے۔
اسلحے کی تجارت کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے، ECCHR کا کہنا ہے کہ جرمنی کی برآمدات اس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں، جو اس صورت میں ہتھیاروں کی منتقلی پر پابندی لگاتا ہے اگر انہیں جنگی جرائم کے ارتکاب کے لیے استعمال کیے جانے کا نمایاں خطرہ موجود ہو۔
اس مہینے کے شروع میں، جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے کہا تھا کہ برلن اسرائیل کی طرف سے اس بارے میں باضابطہ یقین دہانی کا انتظار کر رہا ہے کہ جرمنی کا فراہم کردہ فوجی سازوسامان بین الاقوامی انسانی قانون کی تعمیل میں استعمال کیا جائے گا۔
یورپ بھر میں سامنے آنے والےقانونی چیلنجوں نے اسرائیل کے دیگر اتحادیوں کو بھی ہتھیاروں کی برآمدات کو روکنے یا معطل کرنے پر مجبور کیا ہے، لیکن اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی برآمدات کو چیلنج کرنے والا کوئی کیس ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائی میں تقریباً 43,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی جنگی مہم سات اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی تھی۔جب عسکریت پسند گروپ حماس نے اسرائیل پر دہشت گرد حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 1,200 لوگ مارے گئے اور 250 سے زیادہ یرغمال بنائے گئےتھے۔
یہ رپورٹ رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی ہے۔