جرمنی نے لبنان کی عسکریت پسند تنظیم 'حزب اللہ' کو دہشت گرد قرار دے کر اپنی سرزمین پر اس کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے جرمنی میں چار مختلف شہروں میں مبینہ طور پر حزب اللہ سے تعلق رکھنے والی چار مساجد پر چھاپے بھی مارے ہیں۔ یہ چھاپے برلن، ڈورٹمنڈ، بریمین اور میونستر کے شہروں میں مارے گئے ہیں۔
جرمن وزیرِ داخلہ ہرست زیحوفر کے ترجمان نے کئی شہروں میں پولیس کے چھاپوں کی تصدیق کی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ چھاپے کہاں مارے گئے ہیں اور وہاں سے کیا کیا تحویل میں لیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک بیان میں کرونا کی وبا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں بھی قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔
جرمن حکام کے مطابق حزب اللہ کے عسکری ونگ سے تعلق رکھنے والے افراد کی جرمنی میں تعداد 1050 کے لگ بھگ ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں جرمن حکومت نے وفاقی پراسیکیوٹرز کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں سے منسلک افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی اجازت دی تھی۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے 2013 میں حزب اللہ کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی تھی البتہ یورپ میں حزب اللہ کی سیاسی سرگرمیاں بدستور جاری تھیں۔
برطانیہ نے 2019 میں حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ جرمنی پر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے طویل عرصے سے زور دیا جا رہا تھا کہ وہ بھی حزب اللہ پر پابندی عائد کرے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق گزشتہ سال جرمنی کے دارالحکومت برلن کے دورے کے موقع پر امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امید ہے کہ جرمنی بھی برطانیہ کی طرح حزب اللہ پر پابندی عائد کر دے گا۔
بعد ازاں جرمنی کی پارلیمنٹ نے دسمبر 2019 میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت شام میں حزب اللہ کی سرگرمیوں کو "دہشت گردی" قرار دیتے ہوئے چانسلر آنگیلا مرخیل کی حکومت سے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
حزب اللہ پر الزام ہے کہ اس نے یہودیوں اور اسرائیل پر متعدد حملے کیے ہیں جب کہ اسرائیل کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، متعدد عرب ممالک اور عرب لیگ پہلے ہی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
یہودیوں کی مختلف تنظیموں نے حزب اللہ پر پابندی کے جرمنی کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
امریکن جیوئش کمیٹی کے صدر ڈیوڈ ہیرس نے کہا ہے کہ یہ نہایت اچھا اقدام ہے۔ اس کی پہلے سے ہی امید تھی اور یہ جرمنی کا اہم فیصلہ ہے۔
ڈیوڈ ہیرس نے کہا کہ اب ہم امید کرتے ہیں یورپ کی دیگر اقوام جرمنی کے فیصلے کا بغور جائزہ لیں گی اور حزب اللہ کے حوالے سے اسی طرح کا نتیجہ اخذ کریں گی۔
شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کا لبنان میں سیاست، فوج اور سماجی سرگرمیوں سے گہرا تعلق ہے اور وہ لبنان میں ایک بڑی سیاسی اور عسکری قوت ہے۔
ایران کی پشت پناہی کی حامل حزب اللہ اس وقت ابھر کر سامنے آئی تھی جب اسرائیل نے جنوبی لبنان میں 1982 میں فوجی مداخلت کی تھی۔ 1992 سے اس کی قیادت حسن نصر اللہ کر رہے ہیں۔
حزب اللہ لبنان میں وزیرِ اعظم حسان دیاب کی بھی حمایت کر رہی ہے جو رواں سال جنوری میں ہی وزیرِ اعظم بنے ہیں۔
حزب اللہ کا عسکری ونگ شام میں کافی فعال ہے اور اس کے جنگجو گزشتہ کئی برسوں سے شام کے صدر بشار الاسد کی حامی سرکاری فوج کے شانہ بشانہ باغیوں سے لڑ رہے ہیں۔