افغانستان کے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے پانچ ماہ بعد نتائج کا اعلان کرتے ہوئے اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا ہے۔ ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حکومت وہ تشکیل دیں گے۔
اس کشیدگی نے ایسے موقع پر جنم لیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہونے والا ہے۔
صدارتی انتخابات 28 ستمبر کو منعقد ہوئے تھے۔ اس کے بعد دھاندلی، تکنیکی مسائل، ووٹنگ کے لیے نصب بایومیٹرک آلات کی غیر تسلی بخش کارکردگی، حملوں اور دیگر بے قاعدگیوں کے الزامات لگائے گئے۔
انتخابی کمیشن نے منگل کو اعلان کیا کہ اشرف غنی نے 50.64 فیصد ووٹ لے کر انتخاب جیتا جب کہ عبداللہ عبداللہ 39.52 فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن انہوں نے اور ان کے اتحادیوں نے جیتا ہے۔ اس لیے حکومت وہ تشکیل دیں گے۔
ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ نتیجہ جمہوریت کا تختہ الٹنے کے مترادف ہے۔ یہ عوام کی رائے چوری کرنے کا معاملہ ہے جسے ہم ناجائز سمجھتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے دسمبر میں ابتدائی نتائج کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق اشرف غنی معمولی اکثریت سے دوبارہ کامیاب قرار پائے تھے لیکن تب بھی عبداللہ عبداللہ نے نتیجے کو دھوکہ دہی قرار دیتے ہوئے اس کا مکمل جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
دو ہزار چودہ میں بھی انتخابی نتائج کی ایسی ہی صورت حال تھی۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے ایک دوسرے کے خلاف بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے۔ اس کے بعد امریکہ نے ثالثی کرتے ہوئے اختیارات کی شراکت کا بندوبست کیا تھا جس کے نتیجے میں اشرف غنی صدر اور عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے۔
دونوں کے تعلقات میں عدم اعتماد کا عنصر حائل تھا اس لیے کابل میں اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔
اب نئے سیاسی بحران نے ایسے وقت میں سر اٹھایا ہے جب امریکہ اور طالبان قطر میں سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ سمجھوتے پر پانچ روز کے اندر عمل درآمد ہوگا۔
سمجھوتے کے نتیجے میں سیاسی قیادت اور طالبان کے درمیان فیصلہ کن بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ طالبان ماضی میں افغان حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دے کر اس کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔
طالبان نے بھی منگل کو انتخابی نتائج کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ امن عمل کے خلاف ہے۔
دو مغربی سفارت کاروں نے کابل میں نیوز ایجنسی 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابی نتائج کے اعلان کا درست وقت تھا۔ تمام مغربی ملکوں نے جمہوری عمل کے لیے سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔