’آرٹس کونسل آف پاکستان‘، کراچی میں ان دنوں 10ویں عالمی اُردو کانفرنس بہت اہتمام کے ساتھ جاری ہے۔ پچھلے چار دنوں سے اس کانفرنس میں ادب، ثقافت، موسیقی، رقص اور دیگر فنونِ لطیفہ کے ستارے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہیں۔
اتوار کی شام کانفرنس کے چوتھے روز موسیقی کے حوالے سے ایک سیشن ہوا جس کا موضوع تھا ’پاکستان میں موسیقی کا سفر‘۔
سیشن کے شرکا میں پاکستان کے معروف کلاسیکل گلوکار حامد علی خاں، نامور اداکار، موسیقار اور نیشنل اکیڈمی آف پرفامنگ آرٹس کے سربراہ ارشد محمود، پی ٹی وی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر اطہر وقار عظیم، موسیقار امجد حسین شاہ اور ملاحت اعوان شامل تھے۔
شرکاء نے نہایت افسردگی کے عالم میں مجموعی طور پر ان خیالات کا اظہار کیا کہ '’آج کے دور میں غزل کہیں کھو گئی ہے؛ یہ روبہ زوال ہے؛ ہمارے یہاں فورمز ہی نہیں اس لئے غزل بھی پیچھے رہ گئی ہے''؛ اور یہ کہ ''ہم میں سے بہت سارے لوگ غزل کے ورثے کو بھولنے لگے ہیں۔''
حامد علی خاں نے کہا ہے کہ ''موجودہ دور میں غزل اور کلاسیکل موسیقی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں کلاسیکل کے اساتذہ کو بہت شوق سے سنا جاتا تھا، استاد امانت علی خاں، استاد سلامت علی خاں اور کلاسیکل گائیکی کے دیگر اساتذہ کا دور اب نظر نہیں آرہا۔ اس حوالے سے میڈیا سمیت فن و ثقافت سے متعلق شخصیات اور اداروں کو توجہ دینی چاہئے۔''
استاد حامد علی خاں نے کہا کہ ''کلاسیکل گائیکی سے وابستہ گلوکاروں کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ سننے والے انہیں سن بھی رہے ہیں یا نہیں''۔
انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کراچی موسیقی سمیت فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف کے تحفظ کے لئے جس طرح سرگرم ہے اس کے لئے احمد شاہ سمیت ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی حق دار ہے۔
ارشد محمود نے کہا کہ ''مختلف اداروں سے جو مواقع پہلے فن کاروں کو ملتے تھے وہ اب نہیں مل رہے یہ بہت ضروری ہے کہ چھوٹا پودا لگانے کا عمل جاری رکھا جائے، تخلیقی عمل سے جڑے ہوئے لوگوں کو آپ کبھی نہیں روک سکتے''۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارا فنکار کمزور نہیں ہوا ہے بلکہ ایڈیٹر کمزور ہوگئے ہیں''۔
امجد حسین شاہ نے کہا کہ ''ہمارے موسیقی کاروں نے کسی بھی دور میں کبھی ہار نہیں مانی بلکہ خوبصورت موسیقی تخلیق کرکے مختلف گانوں کو امر بنا دیا ہے''۔
انہوں نے کہا کہ ''ہمیں اپنے ورثے کو نہیں بھولنا چاہئے بلکہ اُسے ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ آج کی نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن سے غافل نہ ہو۔ آج کی نسل کو اپنے بڑوں سے سیکھنا چاہئے''۔ انہوں نے کہا کہ نئی نسل کو پتہ ہی نہیں کہ غزل اصل میں ہے کیا۔ اسی لئے، آج کے دورمیں یہ روبہ زوال ہے۔''
ملاحت اعوان نے کہا کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کلچر اور موسیقی کو پروان چڑھائیں یہ کسی ایک شخص یا ادارے کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس کی بقا کے لئے ہر شخص اپنا حصہ ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ ''کلاسیکی اور موسیقی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ اگر آپ دو دِن بھی کسی کو راگ سنائیں گے تو اس میں شوق پیدا ہوگا۔ ہمارے ہاں ایسے فورمز کی کمی ہے جو اپنے کلچر کو آگے کی جانب لے کر جائیں ان حالات میں غزل بھی پیچھے رہ گئی ہے''۔
پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اطہر وقار عظیم نے کہا کہ استاد امانت علی کی کئی نظمیں اب بھی پرائیویٹ چینل پر نشر کی جاتی ہیں، مگر ہمارے ہاں کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو غزل کو پرموٹ ہونے ہی نہیں دے رہے۔
عمران (عمو) نے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، غزل سمیت دیگر موسیقی کو سنا۔ لیکن، موجودہ دور میں غزل کی جگہ اب کچھ اور ہی بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''کارپوریٹ نہیں چاہتا کہ غزل کو پروان چڑھایا جائے۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنے ورثے کو بھولنے لگے ہیں''۔