وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف جہاں حکمران پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور اس کے اتحادیوں نے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے وہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم سے فوری مستعفی ہونے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم گیلانی کے پاس اپنے منصب پر فائز رہنے کا مزید کوئی جواز نہیں ہے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے پر یقیناً کسی کو بھی خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی میرے خیال میں سپریم کورٹ نے خوشی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب سزا پانے بعد وزیراعظم کو فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیئے۔‘‘
معروف قانون دان اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما حامد خان نے پارٹی کے سربراہ عمران خان کے ہمراہ ایک ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس آدمی کو ایک مرتبہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ ایک دن کے لیے بھی وزیراعظم کے منصب پر بیھٹے۔‘‘
لیکن وفاقی وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے حزب اختلاف کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم گیلانی کو کسی اخلاقی جرم میں سزا نہیں سنائی گئی اور مخلوط حکومت کی کابینہ کو یقین ہے کہ وہ اب بھی ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔
’’اخلاقیات کا درس ہمیں دینے کے ضروری ہے کہ وزیراعظم پاکستان پر جو الزام ہیں، وہ وزیراعظم سر تسلیم خم کر کے تین دفعہ اس عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ اس میں ایک وزیراعظم پہلے بھی پیش ہوا اور عدالت کے ساتھ جو حشر ہوا تھا وہ بھی اس ملک کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔‘‘
وزیراعظم گیلانی کے مستقبل کے بارے میں آئینی و قانونی ماہرین نے منقسم رائے کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
’’جہاں تک وزیراعظم کا سوال ہے میں نے تو کوئی ایسی بات نہیں دیکھی کہ تضحیک کی گئی ہو۔ وہ اس عدالت میں پیش بھی ہوئے اور با ادب طریقے سے بات کی۔ اگر اس طریقے سے نا اہل قرار دیا جاتا ہے تو لوگ کہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کو بندوق کے ذریعے باہر نکالا جاتا تھا اب ان کو آئین کی شق (63- جی) کے تحت باہر نکالا جائے گا۔ یہ اچھی روایت نہیں ہے، جمہوری روایت نہیں ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کی بحیثیت رکن پارلیمان اہلیت کا تعین ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور وکیل صفائی اعتزاز احسن نے بھی واضح کیا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لیے آئینی طریقہ کار درج ہے لیکن اس سے قبل وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے جس کے لیے ان کے پاس 30 دن کا وقت ہے۔