پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے اُنھیں عدالت کے برخواست ہونے تک کی سزا سنائی۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’وزیرِ اعظم (یوسف رضا گیلانی) دانستہ طور پر عدالتی حکم کا تمسخر اُڑانے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد بننے والی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کی جائیں گی۔
وزیرِ اعظم کو سنائی گئی سزا ایک منٹ سے بھی کم رہی کیوں کہ فیصلہ سنانے کے فوراً بعد ساتوں جج صاحبان واپس اپنے چیمبرز میں چلے گئے۔
اس کارروائی کے بعد مسٹر گیلانی حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور محافظوں کے حصار میں مسکراتے ہوئے سپریم کورٹ کی عمارت سے نکلے اور اپنی سرکاری گاڑی میں وزیر اعظم ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی وزیر اعظم کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے اور وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد بیشتر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی پارلیمان کی رکنیت اور نتیجتاً وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے اہل نہیں رہے کیوں کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے انھیں سزا سنائی جا چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہہ الدین احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سزا کا دورانیہ اہمیت نہیں رکھتا۔
’’جرم ثابت ہو چکا ہے اور سزا بھی ہو چکی ہے کیوں کہ عدالت حکم دینے کے بعد برخواست ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایک ایسی صورت حال میں ہیں جہاں ہمیں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل شروع کرنا چاہیئے۔‘‘
مگر بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں اس پہلو کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائض رہ سکتے ہیں یا نہیں اور نا ہی اسپیکر قومی اسمبلی کو وزیر اعظم کی نا اہلی کے لیے آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق کارروائی کا آغاز کرنے کی کوئی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
وزیراعظم گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے مؤکل نے انھیں عدالت عظمٰی کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے کہا ہے۔
’’اپیل میں میرے خیال میں یہ مختصر فیصلہ کم از کم اس حد تک برقرار نہیں رہے گا جس حد تک اس میں نا اہلیت کی علامتیں ہیں۔ کیوں کہ فرد جرم میں عدالت کی تضحیک کا وزیراعظم پر الزام نہیں تھا۔‘‘
متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس ’ این آر او‘ کو کالعدم قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل درآمد نا کرنے پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کے خلاف 16 جنوری سے توہینِ عدالت کی سماعت شروع کی تھی اور 13 فروری کو ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔
عدالتی حکم کے مطابق مسٹر گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف بیرون ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے کہا تھا جس کا وہ مسلسل یہ کہہ کر انکار کرتے رہے کہ ایسا کرنا آئین کی خلاف ورزی ہوگا کیوں کہ مسٹر زرداری کو اندرون و بیرون ملک استثنیٰ حاصل ہے۔
اُدھر مسٹر گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا کے فیصلے کے بعد ان کے آبائی ضلع ملتان اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ صوبہ سندھ میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ نے جوں ہی فیصلہ سنایا صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع میں پیپلز پارٹی کے حامی وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے جس کے بعد اکثر علاقوں میں کاروباری مراکز بند ہو گئے۔
کراچی کے علاقے لیاری میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
اطلاعات کے مطابق بعض علاقوں بشمول ملتان میں عدالت سے اظہار یکجہتی کے لیے بھی مظاہرے کیے گئے۔