افغان صدر حامد کرزئی کی دعوت پر پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اورعسکری قیادت ایک روزہ دورے پر ہفتہ کو قابل پہنچ رہی ہے ۔دونوں ممالک کی قیادت دہشت گردی کےخلاف جنگ، علاقائی معاملات اور دو طرفہ تعلقات سمیت خطےمیں امن واستحکام سےمتعلق مذاکرات کرے گی ۔ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں اس طرح کے روابط دونوں ممالک کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
اس وقت خطے کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ دہشت گردوں کی سرحد کے دونوں اطراف نقل مکانی سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے ۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب گرمی کی آمد آمد ہے اور پہاڑوں پر جمی برف پگھل رہی ہے۔ ماہرین کےمطابق گرمی کا یہ موسم طالبان کی افغانستان سے پاکستان آمد کی راہ ہموار کر دیتا ہے اور وہ سرحد کے اس پار آ کر پاکستان کے لئے بھی سنگین سیکورٹی مسائل پیدا کرتے ہیں۔
دونوں ممالک ماضی میں بھی ایک دوسرے کے خلاف سرحدی مداخلت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ امریکا کی جانب سےبھی متعدد بار پاکستان سے یہ مطالبہ کیاجاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کی سرحد کے قریب اپنے علاقے میں طالبان کے خلاف کارروائی کرے۔ اگرچہ پاک فوج کی جانب سے کئی مرتبہ ان علاقوں میں بڑے آپریشنز دیکھنے میں آئے تاہم جب بھی یہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں یہ لوگ کسی نہ کسی طرح فرار ہو جاتے ہیں اور حالات معمول پرآنے کے بعدیہ واپس اپنے ٹھکانوں پر آ جاتے ہیں ۔
اگرچہ دونوں ممالک مسلسل اس بات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ ان کے ممالک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہیں تاہم دو طرفہ قیادت اور عوام کے لئے رواں ماہ پاکستان کے شہرڈیرہ غازی خان کے ایک مزار سے گرفتار ہونے والے عمر نامی خود کش بمبار کا یہ انکشاف آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ اس نے دو سو فدائین کے ہمراہ قبائلی علاقے میرعلی سے تربیت حاصل کی اور اسے کہا گیا کہ افغانستان میں خود کش حملہ کرنا ہے تاہم بعد میں اسے ڈیرہ غازی خان میں پہنچا دیا گیا ۔اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے افغانستان دہشت گردوں کا جانا کتنا آسان ہے اوران کی تعداد کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ اقوام عالم کے لئے بڑا چیلنج ہے۔
خطے میں امن کی حامی اکثریت کے لئے یہ بات حوصلہ افزاء ہےکہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے روابط میں تعطل کی خبریں تین روزقبل اس وقت دم توڑ گئیں جب آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے واشنگٹن میں امریکی ہم منصب لیون پینیٹا سے ملاقات کی اورتمام مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔اب وزیر اعظم گیلانی اور آرمی چیف کے ہمراہ احمد شجاع پاشا بھی دورہ افغانستان پر جا رہے ہیں جس سے یہ صاف ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف ایک پلیٹ فارم پرآچکے ہیں اورمستقبل میں دونوں ممالک نہ صرف ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنےسےگریز کریں گے بلکہ شر پسندوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بھی سامنے لائی جا سکتی ہے۔
دفترخارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ کےمطابق یہ دورہ باہمی دلچسپی اورتشویش کےتمام معاملات پر مشاورت سے ہماری مشترکہ وابستگی کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے افغانستان میں ترقی کو فروغ دینے کا تہیہ کررکھا ہے۔جنوری میں دونوں حکومتوں نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں مدد کی غرض سےایک مشترکہ کمیشن قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی ۔ اب اس کمیشن کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی افغان اعلیٰ امن شوریٰ کے سربراہ اور سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے ساتھ مصالحت اور سابق عسکریت پسندوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے کے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ گزشتہ سال جولائی میں دونوں ممالک کے درمیان پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا جائزہ بھی لیا جائے گاکہ جس معاہدے کو ملٹی بلین ڈالر ایشین مارکیٹ کی بنیاد قرار دیا جا رہا تھا اس کے درمیان کیا روکاوٹیں ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کےعلاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سے مسائل یکساں ہیں جن میں پانی کی قلت، توانائی کے ذرائع اور زیر کاشت زمین کی کمی وغیرہ شامل ہیں لہذا دونوں ممالک کی قیادت کےدرمیان روابط سے سرحد کی دونوں جانب خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب گرمی کی آمد آمد ہے اور پہاڑوں پر جمی برف پگھل رہی ہے ۔ماہرین کے مطابق گرمی کا یہ موسم طالبان کی افغانستان سے پاکستان آمد کی راہ ہموار کر دیتا ہے اور وہ سرحد کے اس پار آ کر پاکستان کے لئے بھی سنگین سیکورٹی مسائل پیدا کرتے ہیں