پاکستان نے اوباما انتظامیہ کی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی منصوبہ بندی پرتنقید کو بلا جواز قرار دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزارت خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ ”افغانستان میں امن و سلامتی کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج نے جو حکمت عملی اپنا رکھی ہے اُس کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جانا چاہیئے۔“
امریکی کانگریس کو بھیجی گئی اپنی جائزہ رپورٹ میں صدر اوباما کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کے پاس عسکریت پسندوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے موثر حکمت عملی موجود نہیں اور اس وجہ سے طالبان اور القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں سے خالی کرائے گئے علاقوں پر اُسے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش میں بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی مہم پر وائٹ ہاؤس کا تجزیہ امریکہ کا نقطہ نظر ہے جس سے پاکستان اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
ان کا واضح ثبوت انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے دوران ہونے والے وسیع جانی و مالی نقصانات ہیں جو پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے برداشت کر رہا ہے۔ ”یہ نقصانات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہیں۔“
تہمینہ جنجوعہ کے بقول پاکستان کے پاس انسداد دہشت گردی اور دوسرے معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی موجود ہے اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر اس پر موثر انداز میں عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بنے کے بعد پاکستان میں سرکاری اور شہری اہداف پر شدت پسندوں کے خودکش اور دیگر حملے معمول بن چکے ہیں۔
ایک غیر سرکاری پاکستانی تنظیم ’Individualland‘ نے حال ہی میں ملک میں پچھلے 10 سالوں میں انسداد دہشت گردی کی مہم کا جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق 2003ء سے آج تک شدت پسندوں کے خلاف لڑائی اور دہشت گردی کی جوابی کارروائیوں میں لگ بھگ 13,000 عام شہری اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔