گلگت میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے بعد شہر میں حالات بدستور کشیدہ ہیں اور امن و امان میں خلل ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک روز قبل نافذ کیے گئے کرفیو کی پابندیاں بغیر کسی وقفے کے بدھ کو بھی برقرار ہیں۔
شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کنٹرول فوج نے سنبھال رکھا ہے جب کہ فسادات کی ممکنہ کوششوں کی روک تھام کے لیے گلگت اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تمام موبائل فون کمپنیوں کا مواصلاتی نظام بھی بدستور منجمد ہے۔
گلگت سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شہری اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور کرفیو کی پابندیاں بعض علاقوں میں غذائی اشیاء کی قلت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔
فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات منگل کو اس وقت شروع ہوئے تھے جب گلگت شہر کے مرکزی اتحاد چوک میں اہلِ سنت والجماعت کی احتجاجی ریلی پر مبینہ دستی بم حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں متحارب گروپوں کے درمیان کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا جب کہ چلاس میں شاہراہ قراقرم پر مشتعل افراد نے مسافر بسوں کو روک کر ان میں سوار شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
مجموعی طور پر منگل کو ہونے والے ان پرتشدد واقعات میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
سیاحوں کے لیے پرکشش اور نسبتاً پُرامن سمجھے جانے والے پاکستان کے شمالی خطے گلگت بلتستان میں فروری کے اواخر میں بھی مشتبہ سنی مسلمانوں نے شاہرہ قراقرم پر بسوں کے ایک قافلے پر حملہ کر کے 18 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ مرنے والوں کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔