رسائی کے لنکس

گلگت بلتستان میں درجنوں جاپانی سیاح محصور


پاکستان کے شمالی خطے گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور مسلسل کرفیو کے نفاذ کے باعث ناصرف مقامی باشندے گزشتہ چند روز سے شدید مشکلات کا شکار ہیں بلکہ 100 سے زائد غیر ملکی سیاح بھی وہاں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جن میں سے اکثر جاپانی ہیں۔

منگل کو ہونے والے شعیہ سنی فرقہ وارانہ فسادات کے بعد حکام نے علاقے میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو لگا رکھا ہے البتہ جمعہ کو کچھ دیر کے لیے اس میں نرمی کی گئی تاکہ کئی روز سے گھروں میں محصور لوگ اپنے لیے کھانے پینے کی اشیا خرید سکیں۔

لیکن عینی شاہدین نے بتایا کہ بازاروں میں بھی سامان کی قلت ہے کیوں کہ چین کے ساتھ ملحق پاکستان کے اس شمالی حصے کا ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ زمینی اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے سے مقامی منڈیوں تک رسد نہیں پہنچ رہی ہے۔

شعیہ سنی فسادات اچانک بھڑک اٹھنے کے باعث کئی لوگ تا حال گھروں کو واپس نہیں لوٹے ہیں اور ان کی خیر و عافیت کے بارے میں معلومات کا حصول بھی تقریباً ناممکن ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ منگل کو تشدد کے واقعات شروع ہونے کے بعد اسکولوں میں چھٹی کا اعلان کر دیا گیا تاکہ بچے اپنے گھروں کو جلدی واپس جا سکیں لیکن ان میں سے بعض اب تک واپس نہیں پہنچ سکے ہیں۔

ایک مقامی اخبار کا کہنا ہے کہ خیمور کے علاقے کے ایک گھر میں گزشتہ تین روز سے 20 طالب علم محصور ہیں جن کی عمریں بارہ سال سے کم بتائی گئی ہیں۔ ان بچوں نے گھر جاتے وقت فائرنگ سے بچنے کے لیے اس مکان میں پناہ لے لی تھی جہاں ان کی دیکھ بھال ایک اکیلی خاتون کر رہی ہے مگر ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا اس وقت نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ کرفیو کے باعث ان کے والدین کو شاید اپنے بچوں کی کوئی اطلاع بھی نہیں ہے۔

غیر ملکیوں کے لیے گلگت بلتستان کی سیاحت کے دوروں کا بندوبست کرنے والی نجی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ کرفیو کی پابندیوں کے باعث درجنوں غیر ملکی سیاح بھی اس وقت مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز کے صدر امجد ایوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جاپان سے تعلق رکھنے والے اکثر سیاح ہر سال موسم بہار میں خوبانی کے پھولوں کے کھلنے کا نظارہ کرنے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔

’’ہنزہ میں اس وقت تقریباً 70 کے قریب سیاح ہیں جن میں سے 95 فیصد جاپانی شہری ہیں لیکن کچھ کوریائی اور بعض یورپی ہیں، ان کی تعداد میرے خیال میں سات آٹھ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گلگت میں بھی لگ بھگ 23 غیر ملکی شہری پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ ہوائی جہاز کے ذریعے ان غیر ملکیوں کے فوری انخلا کے لیے وہ متعلقہ پاکستانی حکام سے رابطے کر رہے ہیں لیکن اب تک اس سلسلے میں انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔

’’چار دن سے وہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں کچھ بھی نہیں پتہ کہ کیا ہونے والا ہے کیسے ان کو وہاں سے نکالا جائے گا۔ ان کے خاندان والوں اور جاپان کے سفارت خانوں کو بتانے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں اور وہ مجھے مسلسل فون کر کے پوچھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ پاکستانی حکام کو اندازہ ہونا چاہیئے کہ اگر کسی ایک بھی غیر ملکی سیاح کو معمولی سا بھی نقصان ہوا تو یہ ایک بین الاقوامی ایشو بن جائے گا جو ملک کے لیے باعث شرمندگی ہوگا۔‘‘

وفاقی وزیر برائے اُمور کشمیر اور گلگت بلتستان میاں منظور وٹو سے اس بارے میں جاننے کے لیے جب وائس آف امریکہ نے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بظاہر اس تمام صورت حال سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

’’جہاں کہیں اس قسم کا کوئی مسئلہ ہو تو میرے نوٹس میں لائیں ہم ان کو ریلیف دیں گے اور ان کو وہاں سے نکال لیں گے۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے وہاں انتظامیہ موجود ہے اور لوگوں کو سہولت دینے کے لیے ہر قسم کے انتظامات موجود ہیں۔‘‘

امجد ایوب کا کہنا ہے کہ اگر حالات پر جلد قابو نہیں پایا جاتا توموسم گرما میں غیر ملکی سیاح پاکستان نہیں آئیں گے جس سے سیاحت کے شعبے سے منسلک افراد کو بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنے پڑے گا کیونکہ سوات اور دیگر شمال مغربی علاقوں میں امن عامہ کی خراب صورت حال کے بعد ان کے بقول غیر ملکی سیاحوں کی اکثریت نے گلگت بلتستان کا رخ کررکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG