ایبٹ آباد میں طالبہ کو جرگے کے فیصلے پر جلایا گیا: پولیس

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مظاہرے میں شریک خواتین۔ فائل فوٹو

ڈونگا گلی کے ایس ایچ او نصیر خان نے کہا کہ گزشتہ جمعے کو ملنے والی لاش لڑکی عنبرین کی تھی جسے اپنی سہیلی کو کسی لڑکے کے ساتھ بھاگنے میں مدد کے الزام میں قتل کیا گیا۔

پولیس نے پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی کو ہلاک کر کے جلائے جانے کی ذمہ داری ایک مقامی جرگے پر عائد کی ہے۔

پولیس کے مطابق جرگے کے 13 ارکان کے علاوہ قتل کی جانے والی 15 سالہ طالبہ کی والدہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جمعہ کو ڈونگا گلی میں مکول بس سٹاپ پر ایک گاڑی میں ایک طالبہ کی جلی ہوئی لاش ملی تھی جس کے ہاتھ پاؤں گاڑی سے بندھے تھے۔

ڈونگا گلی کے ایس ایچ او نصیر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ جمعہ کو ملنے والی لاش عنبرین کی تھی جسے اس الزام پر قتل کیا گیا کہ اُس نے اپنی سہیلی کی پسند کی شادی کرنے میں مدد کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مکول پائیں گاؤں میں صائمہ نامی ایک لڑکی رفاقت نامی لڑکے کے ساتھ 23 اپریل کو گھر سے چلی گئی اور اپنے خاندان کی مرضی کے بغیر اس سے شادی کر لی۔

نصیر خان کے بقول صائمہ کے والد صفدر اور دیگر اہل خانہ نے اپنی بیٹی کے گھر سے جانے میں معاونت کا الزام اس کی سہیلی عنبرین پر عائد کرتے ہوئے جرگے میں فیصلہ کیا کہ اسے ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ گاؤں کی کوئی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کی جرات نہ کرے۔

اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے عنبرین کو اسی گاڑی میں باندھ کر جلایا گیا جس میں صائمہ اپنے گھر سے گئی تھی۔

نصیر خان نے کہا کہ یہ فیصلہ صائمہ کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے کیا تھا اور اس جرگے میں شامل 15 میں سے 13 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں جمعرات کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔

ان 13 افراد کے علاوہ لڑکی کی والدہ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جسے جرگے کے فیصلہ کا علم تھا مگر اس نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کی نظر میں یہ واقعہ سراسر زیادتی، ظلم اور بربریت پر مبنی ہے اور قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت اس کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکی صائمہ اور اس کا شوہر پنجاب کے کسی علاقے میں روپوش ہیں۔

طویل عرصہ سے عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن اور نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی سابق چیئر پرسن خاور ممتاز وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ ہے جس میں اجتماعی فیصلے کے تحت ایک لڑکی کو بیہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔

’’اس قسم کے جرگے جو عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں انہیں بالکل ممنوع قرار دینا چاہیئے۔ نیشنل کمیشن نے ایک قانون میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا ہے کہ اس قسم کے قتل کو قتل عمد سمجھا جائے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے پر بھرپور کارروائی کی جائے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپریل میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ 2015 میں غیرت کے نام پر قتل کے 987 واقعات میں 1,096 عورتوں قتل کیا گیا۔ گزشتہ سالوں کی نسبت 2016 میں زیادہ تعداد میں عورتوں کو قتل کیا گیا۔

رواں سال غیرت کے نام پر قتل کے موضوع بنائی گئی پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنوئے کی ایک دستاویزی فلم نے آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے شرمین سے ملاقات اور بعد ازاں فلم کی تقریب رونمائی کے موقع پر یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ موجودہ حکومت غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے موثر اقدام کرے گی۔