پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آگاہی اور اس بابت مذاکرے سے حقوق نسواں اور غیرت کے نام پر تشدد سے متعلق پائی جانے والی منفی سوچ اور رویے کو تبدیل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق خودمختار کمیشن "ایچ آر سی پی" نے جمعہ کو جاری کردہ اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ سال 2015ء میں گزشتہ سالوں کی نسبت پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا اور تقریباً 1100 خواتین ان واقعات میں جان کی بازی ہار گئیں جب کہ 88 مرد بھی غیرت کے نام پر قتل کر دیے گئے۔
سال 2014ء میں یہ تعداد ایک ہزار کے قریب تھی جب کہ 2013ء میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خواتین کی تعداد 869 تھی۔
حقوق نسواں کی ایک سرگرم کارکن شیما کرمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے اس معاملے پر مسلسل بات کیا جانا ضروری ہے۔
حال ہی میں غیرت کے نام پر قتل کے موضوع بنائی گئی پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنوئے کی ایک دستاویزی فلم نے آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا اور وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے فلسماز کو تہنیتی پیغام دیے جانے کے ساتھ ساتھ یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی کہ موجودہ حکومت غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے موثر اقدام کرے گی۔
حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز کہتی ہیں کہ حکومت اس ضمن میں قانون سازی کے لیے سنجیدہ ہے اور جلد ہی اس بارے میں ایک مسودہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جا رہا ہے۔
خواتین سے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا تھا کہ گزشتہ سال 939 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ ان کے اغوا کے 833 واقعات رپورٹ ہوئے۔ گزرے برس 777 خواتین نے خودکشی کی یا پھر یہ قدم اٹھانے کی کوشش کی۔
مزید برآں ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال پرتشدد واقعات میں ماضی کی نسبت کمی دیکھی گئی لیکن اس کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیشن کے عہدیدار کامران عارف نے رپورٹ کے اجرا پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ماضی کی نسبت 2015ء میں دہشت گرد واقعات میں چالیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اور دہشت گردی کے 706 واقعات میں کم ازکم 1325 افراد ہلاک ہوئے جن میں 619 عام شہری اور سکیورٹی فورسز کے 348 اہلکار بھی شامل ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں کی وجہ سے ماضی کی نسبت پرتشدد واقعات میں کمی ہوئی لیکن اب بھی جو اکا دکا واقعات رونما ہوتے ہیں وہ ان کاررائیوں کا ردعمل ہے لیکن ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک سکیورٹی فورسز آپریشن جاری رکھیں گی۔