گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ کاربن گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسوں، جنہیں گرین ہاؤس گیسیں بھی کہا جاتا ہے، کا زیادہ تر حصہ کاربن ڈائی اکسائیڈ اور میتھین پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر یہ معلوم کر لیا جائے کہ فضا میں میتھین گیس کی مقدار کیا ہے تو ہماری زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر نسبتاً کم وقت میں قابو پایا جا سکتا ہے۔
ایک حالیہ سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ میتھین گیس گلوبل وارمنگ میں ایک اہم حصہ دار ہے اور گزشتہ تین صدیوں کے دوران ہمارے فضائی کرے میں اس کی مقدار میں 150 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
لیکن دوسری جانب میتھین کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس گیس کے فضا میں ٹھہرنے کی مدت بہت کم ہے اور تقریباً 9 سال کے اندر یہ ہمارے فضائی کرے سے ختم ہو جاتی ہے، جب کہ دوسری جانب کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کم و بیش ایک سو سال تک اپنی موجودگی برقرار رکھتی ہے۔
ہم اپنی ترقی کے پہیئے کو حرکت دینے کے لیے زیادہ تر معدنی ایندھن جلاتے ہیں، جس میں کوئلہ، تیل اور گیس شامل ہیں۔ معدنی ایندھن جلنے سے جہاں ایک طرف توانائی حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف کاربن ڈائی اکسائیڈ سمیت کاربن گیسوں کی بڑی مقدار بھی خارج ہوتی ہے۔
نیویارک میں قائم یونیورسٹی آف راچسٹر میں ماحول اور زمین سے متعلق سائنسز کے شعبے کے پروفیسر بنجمن ہمیل کی قیادت میں ایک ٹیم نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ اگر معدنی ایندھن استعمال کرنے والی انڈسٹری اپنی گرین ہاؤس گیسوں میں سے میتھین کی مقدار پر کنٹرول کر لے تو گلوبل وارمنگ کے اثرات پر کم وقت میں قابو پایا جا سکتا ہے۔ نو سال کے عرصے میں یہ گیس فضا سے ختم ہو جائے گی، جب کہ کاربن ڈائی اکسائیڈ اس کے بعد بھی مزید 90 سال موجود رہے گی۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج میں کمی کا انسان کو کوئی فوری فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے مطلوبہ نتائج کے لیے ایک صدی تک انتظار کرنا ہو گا۔
کاربن ڈائی اکسائیڈ اور میتھین، دونوں گلوبل وارمنگ کا سبب ہیں۔ یہ گیسیں ہماری زمین کے اوپر فضا میں ایک ایسا دائرہ کھینچ دیتی ہیں جو سورج سے حرارت کو زمین پر آنے تو دیتا ہے، لیکن واپس نہیں جانے دیتا، جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
درجہ حرارت بڑھنے سے زمین کے قدرتی نظام میں خلل پڑتا ہے۔ پہاڑوں پر سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے۔ موسم شديد ہو جاتے ہیں اور زندگی کے لیے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اگر زمین مسلسل گرم ہوتی رہی تو وہ مقام آ سکتا ہے کہ وہ حیات کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔
فضا میں میتھین کی مقدار کی پیمائش کی ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ تاہم، پروفیسر بنجمن ہمیل اور ان کی ٹیم نے صنعتی دور شروع ہونے سے پہلے فضا میں میتھین کی مقدار جانچنے کا ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا۔ انہوں نے گرین لینڈ کے منجمد گلیشیئرز سے قدیم برف کے ٹکڑے حاصل کیے جو دو صدیاں پرانے تھے۔ انہیں پگھلا کر ان میں موجود ہوا کے بلبلوں میں میتھین گیس کے آئیسٹوپس کا تجزیہ کیا گیا۔ اس سے پتا چلا کہ صنعتی دور سے پہلے زمین کی فضا میں موجود میتھین گیس، آج کے مقابلے میں 10 گنا کم تھی۔
میتھین گیس دو طرح سے خارج ہوتی ہے، اولاً جانور یہ گیس خارج کرتے ہیں۔ بڑے سائز کے جانور اتنی زیادہ میتھین خارج کرتے ہیں کہ کئی سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ گائے بھینس، اونٹ اور اسی سائز کے بڑے جانوروں کو ہلاک کر دینے سے گلوبل وارمنگ پر کنٹرول میں مدد مل سکتی ہے، جب کہ معدنی ایندھن جلانے سے بھی میتھین خارج ہوتی ہے۔
پروفیسر بنجمن ہمیل کہتے ہیں کہ اس تحقیق کے نتیجے میں ہمارے پاس یہ خوش خبری موجود ہے کہ کم مدت میں گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کا ایک نسخہ اب ہماری دسترس میں ہے۔