وفاقی اداروں میں ہفتے کی چھٹی بحال، کاروباری مراکز جلد بند کرنے پر اتفاق نہ ہو سکا

فائل فوٹو

پاکستان میں توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے منصوبہ پیش کر دیا ہے جس کے مطابق سرکاری اداروں میں ہفتے کی چھٹی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں بجلی کی بڑھتی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت میں شامل جماعتوں کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران کابینہ ارکان نے ملک کو درپیش مسائل خصوصاً بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے مشاورت کی۔

اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے دوران ملک میں لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے طریقوں اور توانائی کی صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی۔

مریم اورنگزیب نے بتایا کہ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت نے سرکاری اداروں میں ہفتے کی چھٹی بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ سرکاری ملازمین کے فیول کوٹہ میں 40 فی صد کمی کر کے حکومت نے اپنے گھر سے بچت منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سرکاری سطح پر گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگا دی ہے جب کہ حکومت نے سرکاری میٹنگز کو ورچوئل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد وفاقی سرکاری اداروں میں ہفتے کی چھٹی بند کر دی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بجلی کی زائد طلب کو پورا کرنے کے لیے پیداواری صلاحیت کی کمی ہے۔ سپلائی چین میں بھی گیپ ہے کیوں کہ سابق حکومت نے ایندھن کے بہت سے معاہدے نہیں کیے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو فوری طور پر حل کر رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت کے قیام کے بعد سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔

توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے حال ہی میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے سرکاری دفاتر اور کاروباری مراکز میں کام کے اوقات کم کر کے توانائی بحران پر قابو پانے کی تجویز پیش کی تھی۔یہ معاملہ منگل کو جب کابینہ اجلاس میں اٹھایا گیا تو ارکان نے اس پر اتفاق نہ کیا۔

وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق تاجروں اور کاروباری طبقے کو مارکیٹوں کے جلد بند کرنے پر اعتماد میں لیا جائے گا۔

'معیشت کی بحالی کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے'

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس ڈویلپمنٹ سے وابستہ ڈاکٹر درنایاب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہفتہ کی چھٹی بحال ہونا ایک بہترین فیصلہ ہے کیونکہ اس کے ختم ہونے سے سرکاری ملازمین مشکلات سے دوچار تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں کام کے دن پانچ سے چار کرنے کی بات ہو رہی ہے لیکن ہمارے ہاں انہیں چھ کر دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر درنایاب کا کہنا تھا کہ حکومت کو جمعے کو ورک فراہم ہوم کی تجویز پر بھی عمل درآمد کرنا چاہیے کیوں کہ کرونا وبا کے تجربات کے باعث اب ایسا کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

اُن کے بقول ایک دن دفاتر بند ہونے سے بجلی اور،فیول کی مد میں ہی کروڑوں روپے کی بچت ہوسکتی ہے اور اگر ورکنگ ڈیز چار ہوجائیں تو اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر درنایاب نے کہا کہ فیول کی بچت کے لیے 40 فی صد کمی کرنا اچھا فیصلہ ہے کیونکہ بڑے سرکاری افسران کو گاڑیوں کی مونوٹائزیشن بھی ملتی ہے، لہذٰا انہیں اپنی جیب سے ہی فیول ڈلوانا چاہیے۔


جلد دکانیں بند کرنے کے فیصلہ کے حوالے سے ڈاکٹر درنایاب کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جلد کاروبار کھولے جاتے ہیں اور شام پانچ سے چھ بجے تک سب بند کردیا جاتا ہے اور دن کی روشنی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اُن کے بقول ہمارے ہاں ایک الگ رواج ہے کہ شام کے وقت لاکھوں یونٹس بجلی جلا کر چراغاں کیا جاتا ہے۔ اگر حکومت اس بارے میں سختی کرے اور کاروبار جلدی کھولنے کے حوالے سے احکامات دے تو صرف کچھ عرصہ کی بات ہے اور لوگوں کی عادت بن جائے گی کہ وہ اپنی خریداری دن کے اوقات میں کرلیں۔ کرونا کے دنوں میں آن لائن بزنس نے فروغ پایا اور اب کئی لوگوں کی عادت بن رہی ہے کہ وہ آن لائن کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی سب صبح خریداری کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔

'موسم گرما کے درجہ حرارت میں جلد دکانیں بند کرنا ممکن نہیں'

آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دکانیں اور کاروبار جلد بند کرنے کے فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دن کے اوقات میں حالیہ دنوں میں اگر دیکھیں تو درجہ حرارت 40 ڈگری سے زیادہ جا رہا ہے، اس شدید موسم میں کوئی بھی شخص خریداری کے لیے گھروں سے نہیں نکلتا۔اگر آپ جلدی دکانیں بند کردیں گے تو پھر وہی کرونا کے دنوں والا کام شروع ہوجائے گا جس میں پولیس کو لوگ رشوت دے کر دکانیں کھولیں گے اور بعض جگہوں پر چھاپے پڑنے سے پولیس کے ساتھ جھگڑے ہوں گے۔

اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ تاجر کمرشل ریٹ پر پیک آورز میں سب سے مہنگی بجلی خرید رہے ہیں اور حکومتی خزانے میں جمع کروا رہے ہیں۔ اگر حکومت ایسا کوئی فیصلہ کرے گی تو اسے نقصان ہوگا۔