شہباز حکومت کا مدت پوری کرنے کا عندیہ، 'معیشت کو ٹریک پر لانا بڑا چیلنج ہو گا'

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کے باوجود عام انتخابات مقررہ مدت یعنی اگلے برس ہی ہوں گے۔

منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے بعض سخت فیصلے بھی لینے ہوں تو اس سے گُریز نہ کیا جائے۔

ملک کن معاشی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے؟

پاکستان اس وقت معاشی طور پر انتہائی مشکل صورتِ حال کا سامنا کر رہا ہے جہاں اسے رواں سال اور آئندہ برس 30 ارب ڈالرز کے لگ بھگ کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں، وہیں ملک کا تجارتی خسارہ رواں مالی سال کے نو ماہ میں 39 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔

جاری کھاتوں کے خسارے کی بات کی جائے تو وہ بھی 13 ارب ڈالرز سے بڑھ چکا ہے۔ تجارتی خسارے اور دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستانی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی دیکھی جارہی ہے اور انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 199 روپے پاکستانی روپے ہوچکی ہے۔

نئی حکومت کے پانچ ہفتوں میں اس میں تقریباً 15 روپے سے زائد کی کمی آ چکی ہے۔ دوسری جانب ملک میں مہنگائی کی شرح 13.4 فی صد کو چھو رہی ہے جس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو کافی پریشانی کا سامنا ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں نئی غیر ملکی سرمایہ کاری کی شرح میں کمی اور غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بھی دیگر علاقائی ممالک سے کم ہے اور برآمدات میں اضافہ انتہائی سست روی سے ہو رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔

ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا پہلی ترجیح ہونی چاہیے

اتحادی حکومت کی جانب سے وقت پر انتخابات کے اہم اعلان کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو زبوں حال معیشت میں بہتری لانےکے لیے فوری طور پر بعض اقدامات کرنا ہوں گے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ایک جانب طویل المدتی اور وسط مدتی مسلسل معاشی اصلاحات درکار ہیں تو دوسری جانب فوری طور پر بعض ایسے اقدامات بھی ناگزیر ہوچکے ہیں جن کے بغیر ملک دیوالیہ بھی ہوسکتا ہے۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ اہم ضرورت

معاشی امور کے ماہر پروفیسر اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں سب سے پہلے تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی تاکہ فوری طور پر بیرونی ادائیگیوں کے مسئلے سے نمٹا جا سکے۔

اُن کے بقول کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں دیگر مالیاتی اداروں اور اسٹاک مارکیٹ کا اعتماد بھی بحال ہوگا جب کہ بعض دوست ممالک بھی ہماری معاشی مدد کو آگے آسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان رواں اور آئندہ برس بیرونی ادائیگیوں میں ناکام ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

ادھر آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات کا نیا دور بدھ سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہو چکا ہے جس میں پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حکومت کو فنڈ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈیز ختم کرنے، آئندہ بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 11 ہزار ارب تک مقرر کرنے اور آئی ایم ایف کے لیے پالیسی ریٹ میں ایک فی صد اضافے کے مطالبات کا سامنا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'عمران خان کے ایران کی طرف رجحان کی وجہ سے پاکستان سعودی عرب تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہا'

'پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنا یا پھر مساوی محاصل بڑھانا ہوں گے'

ڈاکٹر پاشا کے بقول دوسرا اہم کام پیٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈیز سے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ سبسڈی رکھنا ضروری ہے تو اسے اپنے محاصل بڑھانے کے لیے نئے ذرائع پیدا کرنے ہوں گے۔

معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کے خیال میں معیشت کو سنبھالنے کے لیے پہلا اقدام پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ کرنا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بعد جس قدر جلد ہو آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ بننا ہوگا۔ اس کے بعد پاکستان کو سعودی عرب یا دیگر ممالک کی معاشی مدد بھی درکار ہو گی تاکہ قرضہ جات ادا کرنے اور جاری کھاتوں کا خسارہ پورا کرنے میں مدد مل سکے۔

قرضوں کے حجم اور درآمدات میں کمی کے اقدامات ناگزیر ہیں

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق معیشت کو سنبھالا دے کر حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کی ری اسٹرکچرنگ کرے۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے سات برسوں میں ہمارے بیرونی قرضے کا حجم دگنا ہو چکا ہے۔ سال 2015 میں یہ قرضہ 60 ارب ڈالرز تھا جب کہ اب یہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔

ڈاکٹر پاشا کا خیال ہے کہ اب بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو مثبت کرنے کا وقت آ گیا ہےاس کے لیے غیر ضروری درآمدات پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ پہلے تو ڈیوٹیز بڑھائی جائیں اور اگر اس سے بھی تجارتی خسارہ قابو میں نہ آئے تو ایسی اشیا پر پابندی ہی مؤثر اور واحد حل ہے۔


فوری نوعیت کے اقدامات کے ساتھ وسط اور طویل المدت اقدامات بھی ناگزیرہیں

ڈاکٹر فرخ سلیم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کو ان فوری اقدامات سے محض عارضی سہارا ہی مل سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری نوعیت کے اقدامات کے ساتھ ہی وسط مدتی اور طویل المدتی پالیسیوں کو بھی اپنایا جائے۔

توانائی اور زراعت کے شعبے بھی اصلاح طلب ہیں

ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ بجلی کے سیکٹر میں تحریکِ انصاف کی حکومت آنے کے وقت 1100 ارب روپے کے گردشی قرضے تھے لیکن اب یہ 2500 ارب سے بڑھ چکے ہیں۔

اسی طرح گیس سیکٹر میں بھی گردشی قرضے کا خسارہ بھی 1500 ارب تک جاپہنچا ہے جو چار سال پہلے تک 350 ارب روپے تک محدود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک ریسرچ کے مطابق ملک میں 126 ارب کیوبک فٹ گیس سالانہ چوری ہورہی ہے۔ جس کی قیمت تقریباً چار ارب ڈالرز بنتی ہے۔

ماہرین معیشت کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند سال قبل تک پاکستان گندم اور چینی میں خود کفیل تھا۔ لیکن اس سال پاکستان نے 12 ارب ڈالرز کی غذائی اشیا درآمد کی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی اشیا کی درآمد روکنے کے لیے زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ان کا خیال ہے کہ معیشت میں کارٹلز کے خاتمے، کاروبار میں حکومت کا عمل دخل ختم کرنے اور سرکاری کاروباری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے سے مسابقت کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے معیشت ترقی کرتی ہے اور لوگوں کو بہتر سہولیات میسر آتی ہیں۔