|
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات پر حکومت نے کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی جس میں ججوں کے خط کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق ملاقات میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ بھی شریک تھے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے اور اس حوالے سے کمیشن کے قیام کے لیے معاملہ جمعے کو کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں گی اور نیک نام شخصیت کمیشن کی سربراہی کرے گی۔
وفاقی وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق ججز میں سے کسی ایک کو انکوائری سونپی جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس متفق ہیں کہ اس طرح کے معاملے کی تحقیقات وفاقی حکومت کو کرنا ہوتی ہے۔ فل کورٹ میں بھی اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے یا حکومت کی کمیشن آف انکوائری کا کہا گیا تھا۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ ایک شکایت سامنے آئی ہے جس کی مکمل تحقیق ہونا ضروری ہے۔ اور لازم ہے کہ کھلے دل کے ساتھ تحقیقات کی جائیں۔
ججز کی جانب سے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کوئی نیا معاملہ نہیں۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہی سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں اپنے خطاب میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے افسران پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ عدالتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اپنے من پسند فیصلوں کے لیے بینچ تشکیل دینے کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔
اس تقریر کے بعد شوکت عزیز صدیقی کو ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر اکتوبر 2018 میں عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں ماہ 22 مارچ کو ہی اپنے ایک فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا فیصلے میں لکھا کہ بدقسمتی سے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔
ججز کے خط میں مزید کیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا تھا۔
خط کے متن کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹیریان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جب کہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کے آپریٹو کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بے حد دباؤ ڈالا گیا۔
ججز کے مطابق یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ انہوں نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کر لی ہے۔ آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی مداخلت کا سلسلہ رک نہ سکا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں نہ صرف اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں کا ذکر کیا ہے بلکہ اس سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔