|
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات ختم ہو گئی ہے۔
ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے آج پھر سہ پہر چار بجے فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس کے چیمبر میں جاری ملاقات میں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان بھی موجود تھے۔
وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ملاقات میں ججز کے خط کا معاملہ بھی زیرِ بحث آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی ملاقات سے قبل بدھ کو اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی۔
ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ایسے موقع پر شروع ہوا ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل نے بدھ کو جاری ایک اعلامیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے کم از کم تین رکنی بینچ پر مشتمل کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے مطابق ججز کے خط میں جن خدشات کو اجاگر کیا گیا ہے وہ درحقیقت سنگین ہیں اس لیے معاملے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے حوالے سے اب تک پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ایک ادارے کے ججز نے اپنے ادارے کے ہیڈ چیف جسٹس کو خط لکھا ہے، اس لیے انتظار کریں گے کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ سے ججز کے خط میں کیے گئے دعوؤں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ججز کی جانب سے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کوئی نیا معاملہ نہیں۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہی سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں اپنے خطاب میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے افسران پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ عدالتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اپنے من پسند فیصلوں کے لیے بینچ تشکیل دینے کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔
اس تقریر کے بعد شوکت عزیز صدیقی کو ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر اکتوبر 2018 میں عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں ماہ 22 مارچ کو ہی اپنے ایک فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا فیصلے میں لکھا کہ بدقسمتی سے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔
ججز کے خط میں مزید کیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا تھا۔
خط کے متن کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹیریان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جب کہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کے آپریٹو کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بے حد دباؤ ڈالا گیا۔
ججز کے مطابق یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ انہوں نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کر لی ہے۔ آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی مداخلت کا سلسلہ رک نہ سکا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں نہ صرف اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں کا ذکر کیا ہے بلکہ اس سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔
فورم