یونانی وزیر اعظم الیگزیس سپراس نے منگل کو دو طرفہ مذاکرات کے لئے ماسکو میں روسی صدر ولادیمر پیوٹن سے ملاقات کی ہے۔
کریملن میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران، روسی صدر پیوٹن نے یونان سے خوراک کی درآمدات پر عائد پابندی ہٹانے کا اشارہ دیا۔
مسٹر پیوٹن کے بقول، ’سنہ 2009ء سے 2013ء کے درمیان ہمارے تجارتی حجم میں دو گنا اضافہ ہوا۔ لیکن، بدقسمتی سے، گزشتہ برس اچانک اس میں 40 فیصد کمی آئی۔ اسی وجہ سے میرا خیال ہے کہ آپ کا دورہ بہتر وقت پر نہیں ہو سکا۔ ہمیں تجارتی حجم میں نمو کا جائزہ لینا ہے کہ کس طرح اس نمو کو بحال کیا جائے‘۔
بعد میں، میڈیا سے بات چیت میں روسی صدر نے کہا کہ ’یونانی قائد نے مالی امداد کی بات نہیں کی۔ بلکہ، ہم نے ٹرکش اسٹریم پائپ لائین منصوبے میں یونان کی شرکت پر تبادلہٴخیال کیا ہے، جس سے یونیان کو سالانہ کروڑوں یورو کی آمدن ہوگی اور اس کا فائدہ نہ صرف یونانی معیشت اور مغربی قرضہ فراہم کرنے والوں کو ہوگا، بلکہ روس اور یونان کے درمیان قریبی معاشی تعاون کو بھی فروغ ملے گا‘۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یونان یورپی یونین سے بیل آوٹ کے حصول میں روس سے اپنے تعلقات کو استعمال کرے گا۔
اس موقع پر، یونانی وزیر اعظم الیگزیس سپراس نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کے دورہٴروس کو مغرب کی بے عزتی نہ تصور کیا جائے۔ ’ہم ایک دوسرے کا ہر عالمی فورم پر احترام کرتے ہیں۔ لیکن، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یونان اپنے عوام کی بہتری کے لئے اپنی خارجہ پالیسی پر عمل نہ کرے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے دورے کا مقصد ایک دوسرے کے قریب آنا اور تعلقات کو نئی جہت دینا ہے، جس کا فائدہ دونوں اقوام کو ہو اور خطے میں سلامتی کی صورتحال کو تقویت ملے‘۔
مغربی پابندیوں کے جواب میں روس نے گزشتہ برس یونان سمیت تمام یورپی ممالک سے خوراک کی بعض مصنوعات کی درآمدات پر پابندی عائد کردی تھی۔اس ملاقات کے بعد ایک روسی اخبار کے مطابق، روس یونان کو تیل کی درآمد پر خصوصی رعایت اور نئے قرضوں کی پیشکش کرسکتا ہے۔
سپراس نے یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے، یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی جانب سے دئے گئے 260 ارب ڈالر کے قرضوں بیل آوٹ پیکج پر دوبارہ بات چیت کی کوشش کی ہے۔ یونان کو اس کی قسط کی ادائیگی کی مد میں جمعرات تک 485 ملین ڈالر آئی ایم ایف کو ادا کرنا ہے۔