امریکی حکومت کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر براک اوباما کے اقتدار سنبھالنے کے وقت گوانتانامو بے کیوبا کی فوجی جیل میں جو لوگ زیرِ حراست تھے وہ دہشت گردوں کے لیڈر یا ایسے لوگ نہیں تھے جو امریکہ کے خلاف سازشوں میں ملوث ہوں، بلکہ نچلی سطح کے جنگجو تھے۔
جمعے کے روز ‘واشنگٹن پوسٹ’ کی ویب سائیٹ پر شائع ہونے والی اِس رپورٹ کا حکم صدر اوباما نے گوانتانامو کی جیل بند کرنے کی جانب ایک قدم کے طور پر دیا تھا۔
ٹاسک فورس نے 2009ء میں 240قیدیوں کی صورتِ حال کا جائزہ لیا تھا۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ 123قیدیوں کو اپنے وطن یا کسی تیسرے ملک بھیجا جائے، 36کو جرائم سرزد کرنے پر فردِ جرم عائد کی جائے، اور 48کو جنگی قواننو کے تحت بغیر مقدمہ چلائے تحویل میں رکھا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیال ہے کہ یہ 48قیدی لڑاکا دشمن فورس کے رُکن ہیں، جیسا کہ القاعدہ یا طالبان۔
امریکی رپورٹ میں اِس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ کچھ قیدیوں کو رہا کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا، اِس لیے اُنھیں غیر معینہ مدت تک قید میں رکھا جائے، لیکن دیگر مسائل کے علاوہ اُن کے خلاف موجود ثبوت کافی نہیں جو عدالتوںٕ میں شہادت کے لیے قابلِ قبول ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30یمنی باشندوں کو اُن کے ملک واپس بھیجا جائے، اگر اُن کا ملک محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
سال 2002 میں امریکہ نے گوانتانامو بے میں 779افراد کو قید رکھا تھا، جس میں سے 530کو سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے رہا کر دیا تھا، اوردیگر 59قیدیوں کو اُنھوں نے اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے پر رہا کرنے کی منظوری دی تھی۔
صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مسٹر اوباما کا پہلا انتظامی حکم نامہ گوانتانامو بے قید خانے کو بند کرنے کا تھا، جِس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ لیکن مسٹر اوباما کے اقدام کو کانگریس میں حمایت درکار ہے، جب کہ اوباما انتظامیہ گوانتانامو قیدیوں کے لیے کسی متبادل تنصیب کی تلاش میں ہے۔
مسٹر اوباما کے اقدام کو کانگریس میں حمایت درکار ہے، جب کہ انتظامیہ گوانتانامو قیدیوں کےلیے کسی متبادل تنصیب کی تلاش میں ہے