پاکستان کے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون رکنِ قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کی طرف سے اپنی جماعت کے سربراہ عمران خان پر الزامات کی گونج تاحال سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی ہے۔
جمعرات کو بھی یہ معاملہ پاکستانی میڈیا پر گرم رہا اور الزام تراشی و وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تحریکِ انصاف میں شامل مرد و خواتین عہدیدار عمران خان کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوسری جانب دیگر سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
عمران خان نے براہ راست اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا البتہ جمعرات کو تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ عائشہ گلالئی کی بہن اور اسکواش کی پاکستانی کھلاڑی ماریہ طور پکئی پر تنقید نہ کی جائے۔
عائشہ گلالئی کی بہن اسکوائش کی کھلاڑی ہیں اور اُن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم حالیہ سیاسی بیان بازی کی زد میں وہ بھی آ گئیں اور تحریک انصاف کے کارکنوں و عہدیداروں نے ماریہ کے لباس کو جواز بنا کر اُن پر تنقید کی۔
اس تنقید پر بہت سے حلقوں خاص طور پر حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون کھلاڑی کو سراہنے کے بجائے اُسے تنقید کا نشانہ بنانا قابل افسوس ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین کو نا اہل کرانے کے لیے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں کی جانی والی کوششوں کے بارے میں عمران خان نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ اُن کو نا اہل اور بدنام کرنے کی مہم ’ناکام‘ ہو چکی ہے۔
جب کہ تحریک انصاف نے عائشہ گلالئی کے الزامات کے بعد اُنھیں نا اہل قرار دلانے کے لیے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کر دی ہے۔