ایران میں حکام نے بتایا ہے کہ ایک مسلح شخص نے اتوار کی رات ایران کے جنوبی حصے میں واقع ایک ممتاز شیعہ عالم شاہ چراغ کے مزار پر فائرنگ کر دی جس کی زد میں آ کر ایک شخص ہلاک اور دیگر 8 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ مزار قدیم ایرانی شہر شیراز میں ہے۔
حکام نے بتایا کہ کئی مہینے پہلے بھی وہاں اسی طرح کا ایک حملہ ہوا تھا۔
حکام نے فوری طور پر یہ نہیں بتایا کہ حملہ آور کا شاہ چراغ کے مقبرے پر فائرنگ کا مقصد کیا تھا۔
یہ مقام اپنے گنبدوالی مسجد اور خلافت عباسیہ کے دور میں شیراز میں پناہ لینے والے ممتاز شیعہ رہنما اور بھائیوں محمد ابن موسیٰ اور احمد ابن موسیٰ کے مقبرے کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔
یہاں مسجد اور دینی تعلیم کی درس گاہ چوہودیں صدی میں ملکہ تاشی خاتون نے تعمیر کروائی تھی۔
یہاں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے حاضری دیتے ہیں۔
ایران کے سرکاری خبررساں ادارے ارنا (آئی آر این اے) نے صوبہ فارس کے سیکیورٹی امور کے ڈپٹی گورنر اسماعیل قزلسسفلا کے حوالے سے بتایا ہے کہ فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور 8 زخمی ہوئے ۔
فارس کے گورنر محمد ہادی ایمانیہ نے سرکاری ٹیلی وژن کو بتایا کہ اس حملے میں صرف ایک شخص ملوث تھا جسے بعد ازاں سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔اپنے مختصر تبصرے میں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس حملے کے پس پشت مقاصد کیا تھے۔
حملے کے بعد کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے غروب آفتاب کے وقت شاہ چراغ کے ایک داخلی دروازے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینسز زخمیوں کو لے جا رہی ہیں اور سرکاری اور سیکیورٹی عہدے دار وہاں موجود ہیں۔
SEE ALSO: مزار شریف: ثقافتی تقریب میں دھماکہ، ایک شخص ہلاک، پانچ صحافی زخمیشاہ چراغ کا مزار ایران کے پانچ اہم ترین شیعہ مزاروں میں شامل ہے جہاں حاضری کے لیے بڑی تعداد میں زائرین جاتے ہیں۔ شیراز ایران کے دارالحکومت تہران سے تقریباً 675 کلومیٹر (420 میل) جنوب میں واقع ہے۔
فوری طور پر کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اتوار کی رات ہونے والے حملے سے پہلے اکتوبر 2022 میں اسی مزار پر ایک ایسے ہی حملے میں 13 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
ایران کا کہنا ہے کہ اکتوبر کا حملہ تاجکستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کیا تھا جو بعد ازاں حراست کے دوران سیکیورٹی فورسز کے تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گیا تھا۔
ایران نے شام میں خانہ جنگی کے دوران وہاں کے صدر بشار الاسد کی حمایت کی تھی اور عراق میں بھی داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا تھا۔
ایران میں داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے بدترین حملہ جون 2017 میں تہران میں ہوا تھا جس میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اس حملے میں داعش کے مسلح افراد نے پارلیمنٹ اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے مزار پر حملہ کیا تھا۔
خمینی نے 1979 کے اسلامی انقلاب کی قیادت کی جس کے نتیجے میں مغرب کے حمایت یافتہ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔
آیت اللہ خمینی ایران کے پہلے سپریم لیڈر بنے اور 1989 میں اپنے انتقال تک اس عہدے پر فائز رہے۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس)