|
گوجرانوالہ—پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کے گاؤں سعد اللہ پور میں ایک مدرسے کے طالب علم نے دو افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔ مقتولین کا تعلق احمدی برادری سے تھا۔
منڈی بہاؤ الدین کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر احمد محی الدین نے تصدیق کی کہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے جس کی عمر 18 سے 19 سال ہے اور ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم نے مذہبی جذبات میں آ کر یہ قتل کیے۔ اس کی مقتولین کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔
پولیس کی فرانزک ٹیم نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں اور واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئیں ہیں۔
ملزم کے قبضے سے قتل کے لیے استعمال کی گئی پستول برآمد ہو چکی ہے۔
پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے گوجرانوالہ کے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) سے واقعے کی جامع رپورٹ طلب کر لی ہے۔
SEE ALSO: احمدیوں کے حقوق کی پامالی پر تشویش، قومی کمیشن کا احمدی جماعت کو تحفظ فراہم کرنے پر زورتھانہ بھاگٹ پولیس نے دونوں واقعات کی الگ الگ ایف آئی آرز قتل کی دفعہ 302 اور دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سیون اے ٹی سی کے تحت درج کر لی ہیں۔
ایف آئی آرز میں قتل کی وجہ فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور احمدی اقلیت کے اندر خوف و ہراس پھیلانا قرار دیا گیا ہے۔
ایف آئی آرز کے مطابق مقتولین کو سر کے پیچھے گردن پر گولیاں ماری گئیں جس سے ان کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔
60 سالہ شخص غلام سرور کے قتل کے مقدمے میں ان کا بیٹا ساجد تصور جب کہ 30 سالہ راحت احمد باجوہ کے قتل کے مقدمے میں ان کے والد مشتاق احمد مدعی ہیں۔
پرامن گاؤں سعد اللہ پور
سعد اللہ پور کا شمار ضلع منڈی بہاؤ الدین کے پرامن دیہاتوں میں ہوتا ہے۔
اس گاؤں میں لگ بھگ 50 گھرانے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہیں جب کہ 200 سے زائد گھرانے مسلمانوں کے ہیں۔
اس واقعے سے پہلے کبھی اس گاؤں میں مذہبی بنیادوں پر خون ریزی نہیں ہوئی۔
گاؤں میں ہفتے کی دوپہر لگ بھگ سوا دو بجے اس وقت گولیوں کی آوازیں سنائی دیں جب گاؤں کا ایک نوجوان سید علی رضا مبینہ طور پر ایک معمر شخص غلام سرور پر فائرنگ کر کے فرار ہوا۔
غلام سرور عبادت گاہ سے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد گھر کی طرف واپس جا رہا تھا۔ وہ گھر سے کچھ فاصلے پر ہی گلی میں خون میں لت پت ہو گیا۔
فائرنگ کرنے والا نوجوان وہاں سے لگ بھگ 400 میٹر کے فاصلے پر دوسری گلی کے چوک میں پہنچا جہاں ایک 30 سالہ شخص راحت احمد باجوہ پر بھی فائرنگ کی جو کہ زخمی ہو کر وہیں چوک میں گر گیا۔ یوں دونوں زخمی موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
SEE ALSO: سال 2023 پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت بھیانک رہا: ہیومن رائٹس کمیشنحملہ آور بھاگ کر کچھ فاصلے پر واقع اپنے گھر گیا اور گھر میں چند منٹ گزارنے کے بعد وہ باہر نکل کر گھر سے ملحقہ ایک پرانے ویران مکان میں جا کر چھپ گیا۔ لیکن اسے علاقے کے لوگوں نے دیکھ لیا اور واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس نے وہاں پہنچ کر اسے حراست میں لے لیا۔
مقتول غلام سرور کی عمر 60 سال اور مقتول راحت احمد باجوہ کی عمر 30 سال تھی۔ غلام سرور پیشے کے لحاظ سے زمین دار تھا۔ اس کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بچے ہیں۔ راحت احمد باجوہ کا پکوان سینٹر تھا۔ اس کے لواحقین میں اہلیہ کے علاوہ دو کم عمر بیٹیاں ہیں۔
مقتولین کی لاشوں کو رات گئے ربوہ لے جایا گیا جہاں کے قبرستان میں اتوار کے روز ان کی تدفین کے انتظامات کیے گئے۔
'کسی نے اس کام کے لیے نہیں بہکایا'
منڈی بہاؤالدین کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) احمد محی الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملزم سے سینئر پولیس افسران پر مشتمل ٹیم تفتیش کر رہی ہے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس میں کیس کے ہر پہلو کو مدِ نظر رکھا جا رہا ہے۔
ڈی پی او احمد محی الدین کا کہنا تھا کہ ملزم نے پولیس کے روبرو اقرار جرم کرتے ہوئے کہا کہ اسے کسی نے اس کام کے لیے نہیں بہکایا تھا بلکہ وہ مختلف مذہبی شخصیات کے ویڈیو کلپس دیکھتا تھا جس میں احمدیوں کے قتل کی بات کی جاتی ہے۔ اس کے بقول اس نے یہ قتل جنت کے حصول کے لیے کیے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے بتایا کہ دونوں افراد کا قتل اسی ایک ملزم نے کیا ہے۔ تاہم اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے کہ وہ کس سے متاثر تھا اور اس کا میل جول ان دنوں کس کے ساتھ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم سید علی رضا کا موبائل فون قبضے میں لے لیا گیا ہے اور اسے فرانزک کے لیے متعلقہ ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ اس کے رابطوں کے بارے میں چھان بین کی جا سکے۔ جس سے یہ بات بھی سامنے آ سکے گی کہ وہ کس مذہبی شخصیت سے متاثر تھا اور حالیہ دنوں میں اس کی لوکیشن کن علاقوں کی رہی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے بتایا کہ ملزم کے دو بڑے بھائی روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں۔ یہ خود حافظ قرآن ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کا کسی مذہبی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم کا پستول اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ ملزم کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ اس پر حالیہ دنوں میں مذہبی جذبات حاوی ہوئے جن کے زیر ِاثر اس نے یہ کارروائی کر ڈالی۔
'ملک میں احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم عروج پر ہے'
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے دو احمدیوں کے قتل کو سنگین دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کم عمر نوجوانوں میں احمدیوں کو قتل کرنے اور نفرت و تشدد کا بیانیہ فروغ دینے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی سزا دینے کی اشد ضرورت ہے۔
عامر محمود کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم عروج پر ہے۔ یہ نفرت انگیز مہم چلانے والے ظاہر ہیں تو حکومت ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کرتی؟
ترجمان جماعت احمدیہ نے کہا کہ منڈی بہاؤالدین میں کچھ عرصہ سے احمدیوں کے خلاف مہم میں تیزی آئی ہے اور احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلایا جا رہا ہے۔
ترجمان جماعت احمدیہ نے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف متعصبانہ نفرت انگیز مہم کو روکنے اور مقتولین غلام سرور اور راحت احمد باجوہ کے گرفتار ہونے والے قاتل اور قتل کی مبینہ طور پر ترغیب دینے والے اس کے ساتھیوں اور سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور انہیں قانون کے مطابق کڑی سزا دے کر کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عید الاضحیٰ سے پہلے احمدیوں کے خلاف مہم
کچھ برس سے عید الاضحیٰ کے موقع پر احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف جانور ذبح کرنے پر مقدمات درج کرائے جا رہے ہیں۔ ان مقدمات میں دفعہ 298 سی لگائی جاتی ہے جس کے تحت کسی غیرمسلم کی طرف سے خود کو مسلمان ظاہر کرنا، اپنے مذہبی عقائد میں اسلام کا حوالہ دینا، اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ یا دعوت دینا جرم ہے۔
عید الاضحیٰ کے تین دنوں میں جانور ذبح کرنے والے احمدی کمیونٹی کے افراد کو گرفتار کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں جن پر احمدی افراد کا مؤقف ہے کہ وہ آئین پاکستان کے مطابق اپنے مذہبی عقیدے کے تحت چار دیواری کے اندر دیگر مذہبی رسومات کے ساتھ ساتھ جانور ذبح کر سکتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے جن افراد کے خلاف گزشتہ سالوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے، ان میں سے کچھ افراد کو عدالتوں نے دوران سماعت جرم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے علاوہ پاکستان کے زیرانتظام ریاست جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے چند روز قبل ایک لیٹر جاری کیا گیا جس میں عید الاضحیٰ کے تین دنوں میں احمدی کمیونٹی کے افراد پر جانور ذبح اور گوشت تقسیم کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں میں اضافہ
حالیہ چند برس کے دوران پاکستان میں اقلیتی برادریوں کو تشدد کی کارروائیوں کا سامنا رہا ہے جن میں احمدیہ کمیونٹی اور مسیحی برادری شامل ہیں۔
بہاولپور کے قریب حاصل پور میں احمدیہ کمیونٹی کے صدر طاہر اقبال کو تین ماہ قبل مارچ 2024 میں نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
مئی 2022 میں پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں احمدی شخص کو اس کے دو کمسن بچوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
فروری 2023 میں گجرات میں ناروے کی شہریت رکھنے والے ایک 75 سالہ احمدی رشید احمد کو قتل کیا گیا تھا۔
اگست 2022 میں ربوہ کے لاری اڈے کے قریب حافظ شہزاد نامی ملزم نے ایک 60 سالہ احمدی شخص نصیر احمد کو قتل کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے علاوہ نومبر 2020 میں پشاور کے مضافاتی علاقے شیخ محمدی میں نامعلوم افراد نے جماعتِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ شخص محبوب احمد کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔
2014 میں گوجرانوالہ میں احمدیوں کے گھروں کو آگ لگا کر دو کمسن بچیوں اور ان کی بوڑھی دادی کو ایک پر تشدد ہجوم نے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یوسرف) نے پاکستان میں مسیحیوں کے خلاف سرگودھا میں دو ہفتے قبل تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اپنی 2024 کی سالانہ رپورٹ میں یوسرف نے امریکی محکمۂ خارجہ کو مذہبی آزادی کی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پاکستان کو ایک بار پھر خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دینے کی سفارش کی ہے۔