|
معروف برطانوی مصنف جارج اووریل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ 'کھیل جنگ کی طرح ہی ہیں، بس اس میں گولیاں نہیں چلتی۔' کرکٹ میں پاکستان اور بھارت جیسے روایتی حریفوں کی بات کی جائے تو برطانوی مصنف کا یہ جملہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بڑے مقابلے میں پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر نو جون کو مدِ مقابل آ رہے ہیں۔ یہ مقابلہ نو تعمیر شدہ ناساؤ اسٹیڈیم نیو یارک میں ہو گا۔ لیکن یہاں صرف 34 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
گو کہ پاکستان اپنے پہلے گروپ میچ میں امریکہ کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد زخم خوردہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود شائقینِ کرکٹ پاک، بھارٹ ٹاکرے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے فینز کی بڑی تعداد اس میچ کو براہِ راست دیکھنے کی خواہش مند ہے جس کی وجہ سے ٹکٹوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق ایک ٹکٹ ہزاروں ڈالرز میں فروخت ہو رہا ہے مگر اس کے باوجود دونوں ملکوں کے فینز اس کی کھوج میں ہیں۔ دونوں ممالک ایک، ایک مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹرافی جیت چکے ہیں۔ سن 2007 میں بھارت نے سنسنی خیز مقابلے کے مقابلے پاکستان کو ہی شکست دی تھی جب کہ پاکستان 2009 میں سری لنکا کو فائنل میں شکست دے کر ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بنا تھا۔
'یہ امریکہ میں مقیم فینز کے لیے بڑا موقع ہو گا'
لیجنڈری پاکستانی فاسٹ بالر وسیم اکرم کہتے ہیں کہ امریکہ میں پاکستان، بھارت کرکٹ ٹاکرا وہاں مقیم فینز کے لیے ایک زبردست ایونٹ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "یہ مقابلہ امریکہ میں مقیم پاکستانی اور بھارتی نژاد فینز کے لیے تو خوشی کا باعث ہے ہی، ساتھ ہی یہ امریکیوں کو بھی اس کھیل کو سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا۔"
'یہ سب سے بڑا کرکٹ مقابلہ ہے'
سابق کپتان اور پاکستان کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہونے والے جاوید میانداد کہتے ہیں کہ "پاک، بھارت ٹاکرا کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ ہے۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید میانداد کا کہنا تھا کہ "میں نے ہمیشہ اس مقابلے کا لطف اُٹھایا ہے اور اب جب میں مقابلہ دیکھنے ٹی وی کے سامنے بیٹھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں اب بھی کھیل رہا ہوں۔"
یہ میانداد ہی تھے جنہوں نے 1986 میں شارجہ میں بھارتی بالر چیتن شرما کی آخری گیند پر چھکا مار کر پاکستان کو تاریخی فتح دلائی تھی۔
تو پاکستان اور بھارت کے میچ میں خاص کیا ہے؟
یہ آگ بمقابلہ آگ ہے، آخری گیند تک جاتا ہے۔ 1986 میں چیتن شرما کی آخری گیند پر جاوید میانداد کے چھکے نے پاکستان کی جیت پر مہر لگا دی تھی۔
سن 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں میلبرن میں وراٹ کوہلی کی ناقابل یقین بیٹنگ نے پاکستان کے ہاتھ سے یقینی فتح چھین لی تھی، اس میچ کا فیصلہ بھی آخری گیند پر ہی ہوا تھا۔
سیاسی تناؤ کی وجہ سے دونوں ممالک صرف کثیر الاقومی مقابلوں میں ہی آمنے سامنے آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے کرکٹ فینز کو اس کا انتظار رہتا ہے۔ یہ ہائی وولٹیج مقابلے شائقینِ کرکٹ کو اپنی نشستوں کے کنارے پر ہی رکھتے ہیں اور بعض اوقات یہ کرکٹ مخاصمت چونکا دینے والے ردِعمل کا بھی سبب بنتی ہے۔
شاہد آفریدی کو ایک مرتبہ اس متنازع بیان پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ "پاکستان سے زیادہ بھارت میں پیار ملتا ہے۔" بھارتی طلبہ کے ایک گروپ کو کرکٹ میچ میں پاکستان کو سپورٹ کرنے پر غداری کے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
جاوید میانداد کہتے ہیں کہ اس طرح کے مقابلے پرکشش ہوتے ہیں اور کھیل کی دنیا میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ لیکن بھارت اور پاکستان جیسے روایتی حریفوں کے درمیان ہونے والے مقابلوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کا میچ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں میں اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ کیوں کہ اس میچ میں کوئی اچھا کرتا ہے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے۔
لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیوں کہ یہ دونوں ٹیمیں کبھی کبھار ہی آمنے سامنے آتی ہیں تو اسی لیے ان مقابلوں کی روایتی چمک ختم ہو گئی ہے اور اس کی جگہ اب دیگر ٹیموں کے درمیان ہونے والے مقابلوں نے لے لی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر کا کہنا تھا کہ "ایک وقت تھا کہ بھارت، پاکستان کے درمیان بڑے اور دلچسپ مقابلے ہوتے تھے۔ لیکن اب بھارت اور آسٹریلیا ایک طرح سے روایتی حریف ہیں۔"
گواسکر کے یہ ریمارکس دونوں ملکوں کے کچھ فینز کو ناگوار گزر سکتے ہیں، تاہم حالیہ مقابلوں میں پاکستان کی یک طرفہ شکستیں سابق بھارتی بلے باز کی بات کی توثیق کرتی ہیں۔
بھارت نے ون ڈے ورلڈ کپ کے تمام مقابلوں میں پاکستان کو شکست دی جب کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کھیلے گئے سات میچوں میں سے صرف ایک میچ میں پاکستان کو کامیابی ملی۔ تاہم نتائج سے قطع نظر دونوں ملکوں کے کھلاڑی ہار پر کبھی بھی سمھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ دونوں ملکوں کے فینز کو اس میچ میں شکست ناقابلِ قبول ہوتی ہے۔
گو کہ اس میچ سے قبل دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ بس یہ ایک طرح سے ایک اور کرکٹ میچ ہے۔ لیکن ماضی میں ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کے گھروں کو جلانے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
وسیم اکرم کئی انٹرویوز میں یہ بتا چکے ہیں کہ 1996 کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد چھپ چھپ کر رات کے اندھیرے میں گھر پہنچے تھے۔ وسیم اکرم کندھے کی انجری کی وجہ سے یہ میچ نہیں کھیل پائے تھے۔ کچھ ناراض پاکستانی فینز نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وسیم اکرم نے یہ میچ نہ کھیلنے کے لیے انجری کا بہانہ بنایا تھا۔
بھارتی بالر محمد شامی کو بھی 2021 کے ورلڈ کپ میں پاکستان سے شکست کے بعد فینز کے سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سابق فاسٹ بالر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کا میچ بہت خاص ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس میچ میں شکست کسی بھی ٹیم کو ہضم نہیں ہوتی۔ یہ ایک میچ سے بڑھ کر ہے۔
پاکستان کی 1999، 2003، 2011، 2015، 2019 اور 2023 کے ورلڈ کپ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات پر بھی زور دیا گیا، لیکن یہ معاملات بغیر کسی نتیجے پر منتج ہوئے۔
سابق فاسٹ بالر وہاب ریاض کہتے ہیں کہ "پاکستان اور بھارت کے میچ میں کوئی بھی ٹیم شکست قبول نہیں کرتی۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہوتی، لیکن یہ بہت جذباتی لمحہ ہوتا ہے۔"
سن 2011 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں وہاب ریاض نے پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں، لیکن پھر بھی پاکستان یہ میچ ہار گیا تھا۔
وہاب ریاض کا کہنا تھا کہ اس میچ کے بعد بھی بہت سے الزامات لگائے گئے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم برا کھیلنے کے باعث یہ میچ ہارے۔
بھارت اور پاکستان کے میچ کو دونوں ملکوں میں مقیم فینز کے علاوہ بیرونِ ملک موجود تارکینِ وطن کی بھی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں زیادہ دیکھے جانے والا کرکٹ میچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ دونوں ٹیموں کے پہلے راؤنڈ میں آمنے سامنے آنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
شائقین اور منتظمین ان روایتی حریفوں کو ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے میں دوبارہ ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ مخاصمت نو جون کو ایک بار پھر رنگ جمانے کے لیے تیار ہے اور اس بار نیویارک اس بڑے مقابلے کی میزبانی کرے گا۔
فورم