یمن کے بغاوت سے دوچار صدر، عبد ربو منصور ہادی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے حوثی باغیوں کے ساتھ ایک سمجھوتا طے کر لیا ہے، جنھوں نے اُن کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔
بقول اُن کے، حوثیوں کو آئین کی جس مجوزہ شق پر اعتراض تھا، اُسے ہٹا دیا جائے گا۔
بدلے میں، حوثی باغیوں نے محاصرہ ختم کرنے اور ہفتے کو اغوا کیے گئے ایک اعلیٰ اہل کار کی رہائی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
یہ رعایتیں دارلحکومت صنعاٴمیں تین روز سے جاری تشدد کی کارروائیوں کے بعد دی گئی ہیں، اور امید ہوچلی ہے کہ تعطل ختم ہو جائے گا، جس پر خلیج کے علاقے سے لے کر اقوام متحدہ اور امریکہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں، جو یمن میں قائم القاعدہ کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں موجودہ یمنی حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ یمن کی صورت حال پر نظر رکھنا امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔
بقول اُن کے، ’کسی پیش رفت کے حصول کے لیے حوثیوں کی کوشش تھی کہ اُن کے تمام مطالبات مانے جائیں۔ لیکن، ہادی حکومت نے سخت اعتراضات کے باوجود اُنھیں رد کردیا، خاص طور پر امن اور ساجھے داری کا سمجھوتا اور اُس پر عمل درآمد کا معاملہ‘۔
’حوثیوں نے اعلان کیا ہے کہ ہادی اب بھی صدر ہیں۔ اِس مرحلے پر، ہم صدر ہادی سے دوبارہ گفتگو کرنے کے منتظر ہیں، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ معاملات کہاں تک پہنچے‘۔
یمن کے صدر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تقسیم کے شکار یمن کے اتحاد کے لیے صدر نے ایک وسیع تر نصب العین کے حصول کی پیش کش کی ہے، اس بات پر توجہ دلاتے ہوئے کہ حوثی اور ملک کے جنوبی علاقے میں علیحدگی پسند ہیراک تحریک کے ارکان کو یہ حق حاصل ہے کہ اُنھیں ریاست کے تمام اداروں میں تعینات کیا جائے۔