امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ افغانستان کا مفاد دیکھتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صدر کرزئی کو ہی حاصل ہے اور وہ افغان صدر کا یہ اختیار تسلیم کرتے ہیں۔
واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ افغان حکومت امریکہ کے ساتھ مجوزہ سیکیورٹی معاہدے کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کو زیادہ دیر تک ملتوی نہیں کرسکتی۔
جمعرات کو پولینڈ جاتے ہوئے دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ افغان صدر حامد کرزئی کو امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر فیصلہ جلد کرنا ہوگا اور ان کی جانب سے تاخیر کے نتیجے میں مسائل کھڑے ہوں گے۔
چک ہیگل نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں 2014ء کے بعد اپنے فوجی دستے موجود رکھنے کی صورت میں کافی پہلے سے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور مستقبل کی ضروریات کےمطابق بجٹ منظور کرنا ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس معاہدےسے متعلق جلد کوئی فیصلہ کرے۔
لیکن امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ افغانستان کا مفاد دیکھتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صدر کرزئی کو ہی حاصل ہے اور وہ افغان صدر کا یہ اختیار تسلیم کرتے ہیں۔
چک ہیگل کا کہنا تھا کہ ان کا ملک افغانستان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی "محدود صلاحیت" رکھتا ہے اور وہ افغان حکومت کو اس معاہدے پر مجبور نہیں کرسکتے۔
خیال رہے کہ افغان صدر حامد کرزئی مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں جس کے تحت 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی چند ہزار امریکی فوجی وہاں موجود رہیں گے۔
گوکہ افغان پارلیمان اور قبائلی عمائدین مجوزہ معاہدے کی حمایت کرچکے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے بعض شرائط منظور نہ کرنے کو بنیاد بنا کر پر صدر کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کو التوا میں رکھا ہوا ہے۔
صدر کرزئی 2014ء کے بعد اپنے ملک میں رہ جانے والے امریکی فوجیوں کے خلاف ضرورت پڑنے پر افغان قوانین کے تحت مقدمات چلانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے امریکہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
گزشتہ روز اپنے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب میں بھی امریکہ کے براک اوباما نے مجوزہ معاہدے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک افغانستان میں محدود فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے تیار ہے تاکہ 2014ء کے بعد بھی افغان فوجیوں کی تربیت اور معاونت جاری رکھی جاسکے۔
افغانستان کے سیاسی حلقوں کی جانب سے صدر اوباما کی اس تقریر پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کرزئی اپنے امریکی ہم منصب کے اس خطاب کو "مثبت" سمجھتے ہیں۔
بیان میں صدر کرزئی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خیال میں دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کی کوئی 'ڈیڈلائن' نہیں اور دونوں ملک "صبراور محنت"کے ذریعے قیامِ امن کی کوششوں کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
جمعرات کو پولینڈ جاتے ہوئے دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ افغان صدر حامد کرزئی کو امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر فیصلہ جلد کرنا ہوگا اور ان کی جانب سے تاخیر کے نتیجے میں مسائل کھڑے ہوں گے۔
چک ہیگل نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں 2014ء کے بعد اپنے فوجی دستے موجود رکھنے کی صورت میں کافی پہلے سے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور مستقبل کی ضروریات کےمطابق بجٹ منظور کرنا ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس معاہدےسے متعلق جلد کوئی فیصلہ کرے۔
لیکن امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ افغانستان کا مفاد دیکھتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صدر کرزئی کو ہی حاصل ہے اور وہ افغان صدر کا یہ اختیار تسلیم کرتے ہیں۔
چک ہیگل کا کہنا تھا کہ ان کا ملک افغانستان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی "محدود صلاحیت" رکھتا ہے اور وہ افغان حکومت کو اس معاہدے پر مجبور نہیں کرسکتے۔
خیال رہے کہ افغان صدر حامد کرزئی مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں جس کے تحت 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی چند ہزار امریکی فوجی وہاں موجود رہیں گے۔
گوکہ افغان پارلیمان اور قبائلی عمائدین مجوزہ معاہدے کی حمایت کرچکے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے بعض شرائط منظور نہ کرنے کو بنیاد بنا کر پر صدر کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کو التوا میں رکھا ہوا ہے۔
صدر کرزئی 2014ء کے بعد اپنے ملک میں رہ جانے والے امریکی فوجیوں کے خلاف ضرورت پڑنے پر افغان قوانین کے تحت مقدمات چلانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے امریکہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
گزشتہ روز اپنے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب میں بھی امریکہ کے براک اوباما نے مجوزہ معاہدے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک افغانستان میں محدود فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے تیار ہے تاکہ 2014ء کے بعد بھی افغان فوجیوں کی تربیت اور معاونت جاری رکھی جاسکے۔
افغانستان کے سیاسی حلقوں کی جانب سے صدر اوباما کی اس تقریر پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کرزئی اپنے امریکی ہم منصب کے اس خطاب کو "مثبت" سمجھتے ہیں۔
بیان میں صدر کرزئی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خیال میں دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کی کوئی 'ڈیڈلائن' نہیں اور دونوں ملک "صبراور محنت"کے ذریعے قیامِ امن کی کوششوں کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔