حماس نے کہا ہے کہ اس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ غزہ میں جاری جنگ پر مذاکرات کے لیے مصر پہنچ گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق حماس نے اسماعیل ہنیہ کے قاہرہ پہنچنے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ مصر میں اعلیٰ حکام سے جنگ پر مذاکرات کریں گے۔ البتہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان مذاکرات میں کون کون شریک ہو گا۔
حماس نے اسماعیل ہنیہ کے دورے کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسماعیل ہنیہ نے قطر سے مصر کے لیے روانگی سے قبل دوحہ میں ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبد اللہ سے ملاقات کی تھی۔ جہاں اطلاعات کے مطابق انہوں نے مصر کے دورے کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا۔
’اے ایف پی‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حماس کے سربراہ ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ مصر گئے ہیں جب کہ مصر میں ان کی ملاقاتیں اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ مصری انٹیلی جینس چیف عباس کمال سے بھی ہو گی۔
حماس کے ذرائع نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ان مذاکرات میں غزہ میں جاری لڑائی میں جنگ بندی، اسرائیل کے حملوں کی بندش، قیدیوں کی رہائی، ساحلی پٹی غزہ کے محاصرے کے خاتمے سمیت دیگر امور زیرِ بحث آئیں گے۔
یہ بھی جانیے
غزہ جنگ: اقوام متحدہ کی قرار داد پر ووٹنگ مزیدایک روز کے لیے ملتویجنگ میں ایک اور انسانی وقفے کے لیے تیار ہیں، اسرائیلی صدرغزہ:سی آئی اےسربراہ کے وارسا میں موساداور قطری وزیر اعظم سے مذاکراتاسرائیل کی غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کو بااختیار بنانے کے امریکی منصوبے کی مخالفتغزہ میں جنگ بندی کی کوششیں تیز، سلامتی کونسل کا ایک اور اجلاسحماس کے ہمراہ غزہ میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک ’اسلامی جہاد‘ گروہ کے ذرائع نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ حرکت الجہاد الاسلامی فلسطین کے سربراہ زیاد النخلہ کی بھی مذاکرات میں شریک ہونے کے لیے قاہرہ آمد کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ حماس اور اسلامی جہاد دونوں نے ہی رواں ہفتے اسرائیل سے یرغمال بنائے گئے افراد کی الگ الگ ویڈیوز جاری کی تھیں۔
ان ویڈیوز میں یرغمال افراد رہائی کے لیے اسرائیلی حکومت سے اقدامات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
قبل ازیں نومبر کے اختتام میں اسرائیل اور حماس میں چار دن کی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا جس میں پہلے دو دن اور پھر مزید ایک دن کی توسیع ہوئی تھی۔
سات دن کی عارضی جنگ کے دوران حماس نے لگ بھگ 100 یرغمال افراد کو رہا کیا تھا جب کہ اسرائیلی جیلوں میں قید 240 کے قریب فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ شمالی غزہ کے ساتھ جنوبی اسرائیل میں کئی علاقوں پر سات اکتوبر کو حماس نے حملہ کیا تھا۔ اس حوالے سے اسرائیلی حکام نے بتایا تھا کہ حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 240 افراد کو حماس نے یرغمال بنالیا تھا جن میں سے لگ بھگ 100 افراد کو عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت گزشتہ ماہ کے آخر میں رہا کر دیا گیا تھا۔
حملے کے بعد اسرائیل نے حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق 19 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
اسرائیل نے حماس کے خاتمے اور یرغمال افراد کی رہائی تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں غزہ میں عسکری کارروائیوں کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے تین یرغمالی ہلاک ہو گئے تھے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق یرغمالوں نے شرٹس اتار رکھی تھیں اور ان کے پاس موجود چھڑیوں پر سفید کپڑے لپٹے ہوئے تھے۔ تاہم اسرائیل کی فوج کے اہلکاروں نے خطرہ سمجھ کر ان پر فائرنگ کی جس سے وہ ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں یرغمال افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی حکومت پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ یرغمالوں کی رہائی کے لیے مزید اقدامات کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب اسرائیل کے تین بڑے یورپی اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ بھی اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنی کارروائی میں عام شہریوں کے کم سے کم نقصانات کو ممکن بنائے۔
سلامتی کونسل کی ایک اور قرارداد
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی پر ایک اور قرارداد بدھ کی شب پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
قبل ازیں دو بار پیر اور منگل کو اس قرار داد پر ووٹنگ کا معاملہ مؤخر کیا جا چکا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ ووٹنگ اس لیے مؤخر کی گئی تاکہ امریکہ کو سلامتی کونسل کو ویٹو کا اختیار استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد پر رائے شماری ہوئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
قرارداد پر ووٹنگ کے دوران بھارت اور پاکستان سمیت 153 ممالک کے مندوبین نے جنگ بندی کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ 10 نے مخالفت اور 23 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
ووٹنگ کی مخالفت میں امریکہ، اسرائیل، آسٹریا، چیکیا، گوئٹے مالا، لائیبیریا، پاپوا نیو گنی، پیراگوئے، مائیکرونیشیا اور نوآرو نے ووٹ دیے۔
سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔ البتہ جنرل اسمبلی کی قرار دادوں پر عمل لازمی نہیں ہوتا۔ لیکن یہ دنیا بھر کی رائے کو جانچنے کے لیے اہم ہوتی ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔