افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر قبولیت سے قبل پہلے ملک کے قانونی حیثیت درکار ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان عوام کی نمائندگی کی کوشش نہ کرے بلکہ عالمی اُصولوں کے تحت افغانستان کے ساتھ سول بنیادوں پر تعلقات رکھے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کو قانونی حیثیت صرف افغانستان کے عوام کی خواہش کے اظہار کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آیا پھر وہ انتخابات ہوں یا لویہ جرگے کا انعقاد۔
خیال رہے کہ افغانستان کے مختلف سیاسی، عسکری اور سماجی تنظیموں کے لگ بھگ تین ہزار اراکین پر مشتمل لویہ جرگہ کو افغانستان کے اہم فیصلوں اور تنازعات کے حل میں اہمیت حاصل رہی ہے۔
حامد کرزئی کے بقول افغانستان تاریخ کے ایک نازک موڑ پر ہے اور افغان عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ 'متحد' ہوں اور 'افغان عوام کی خواہش کے اظہار' کے مطابق حکومت بنائیں۔
سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ ''اس حکومت (طالبان) یا کسی اور حکومت کے لیے اپنے ملک میں قانونی حیثیت رکھنا ممالک اور عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کیے جانے کی بنیاد ہے۔'' ان کے بقول حکومتیں اپنے عوام کی مرضی سے قانونی حیثیت حاصل کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''ملک میں قانونی حیثیت کیسے لائی جائے یہ یقیناً اس پر منحصر ہے کہ آیا انتخاب ہو یا افغانستان کے معاملے بالخصوص موجودہ صورتِ حال میں افغانستان کے عوام کی مرضی کا اظہار لویہ جرگہ یا آئین کے ذریعے کیا جائے۔''
'پاکستان افغان عوام کا نمائندہ نہیں'
پاکستان سے متعلق سوال کے جواب میں حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان عوام کا نمائندہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اگست کے وسط میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول اور ملک کے صدر اشرف غنی کے خود ساختہ طور پر جلا وطن ہونے کے بعد سے طالبان کو ابھی تک کسی ملک بشمول پاکستان نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ جسے بعض ممالک طالبان کا قریبی اتحادی سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت مختلف پاکستانی رہنما طالبان کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کابل میں نئی 'افغان حکومت' کے ساتھ کام کرے۔
SEE ALSO: پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کے آثار نمایاں ہیں، تجزیہ کارالبتہ حامد کرزئی کہتے ہیں کہ ''میرا ہمارے برادر ملک پاکستان کو پیغام ہے کہ اسے افغانستان کی نمائندگی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے برعکس اسے ہمارے ملک کے ساتھ سول تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔''
داعش کا خطرہ اور علاقائی اتفاقِ رائے
حامد کرزئی نے دہشت گرد گروہ داعش کے افغانستان میں بڑھتے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے افغانستان اور خطے کے لیے خطرہ قرار دیا۔
افغانستان کے سابق صدر کا کہنا تھا کہ ''چاہے دو ہفتے قبل کابل کی مسجد میں ہوا دھماکہ ہو یا گزشتہ ہفتے قندوز میں ہونے والا دھماکہ یا پھر (15 اکتوبر) کو قندھار میں ہوا دھماکہ، یہ ثابت کرتا ہے کہ داعش افغانستان اور افغان عوام کی زندگی اور معاش کے لیے خطرہ ہے۔''
انہوں نے امید ظاہر کی کہ داعش کے خلاف لڑائی میں خطہ افغانستان کی مدد کرے گا کیوں کہ یہ ان کی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ علاقائی طاقتیں افغانستان میں مشترکہ بنیاد تلاش کریں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ داعش کے مقامی گروپ داعش خراساں نے حالیہ دنوں میں افغانستان کے دارالحکومت کابل، قندوز اور قندھار صوبوں میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان حملوں میں 100 سے زائد شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
خواتین کے حقوق
سابق افغان صدر نے خواتین کے اسکولز، یونی ورسٹیز اور کام کی جگہ پر واپسی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری چاہے مطالبہ کرے یا نہ کرے یہ خواہش بنیادی طور پر افغان عوام کی طرف سے ہے۔
خیال رہے کہ حامد کرزئی کابل میں ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کو خواتین، شہری آزادی پر پابندیوں اور اسلامی قانون کی مبینہ طور پر سخت تشریح کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ اگست کے وسط سے طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے عالمی برادری اُن پر زور دے رہی ہے کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں اور دیگر افغان دھڑوں کو بھی حکومت میں شامل کریں۔