دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کی کوشش میں لاپتا ہونے والے پاکستان کے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو مور کی تلاش کے لیے جاری آپریشن خراب موسم کے باعث عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق موسم کے صاف ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل پیر کو سرچ آپریشن میں ٹیم کو چند مقامات پر کوہ پیماؤں کے چند شواہد ملے تھے۔
تصاویر میں محفوظ کیے گئے شواہد سے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ جان سنوری اور علی سدپارہ کے پہنے ہوئے کوٹ سے ملتے جلتے ہیں۔ تاہم بیس کیمپ میں تصاویر کے بغور جائزہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ شواہد سلیپنگ بیگ کے ہیں۔
یاد رہے کہ تینوں کوہ پیماؤں کا رابطہ جمعے کی شام سے بیس کیمپ سے منقطع ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسکردو سے مقامی صحافی رجب علی قمر کا کہنا تھا کہ لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش گزشتہ چار روز سے جاری ہے لیکن موسم کی خرابی کے باعث ریسکیو آپریشن میں مشکلات در پیش ہیں۔
لاپتا کوہ پیماؤں میں سے علی محمد سد پارہ کا تعلق گلت بلتستان کے علاقے اسکردو سے ہے۔
رجب علی قمر کے مطابق علاقہ مکینوں کو ان کی واپسی کی امید ہے۔
تاہم کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار سے زائد بلندی پر چار دن زندہ رہنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ علی محمد سدپارہ، ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو مور نے گزشتہ 29 جنوری کو کے-ٹو سر کرنے کے لیے سفر شروع کیا تھا۔
ساجد علی سدپارہ کے مطابق وہ بھی اس مشن میں ان کوہ پیماؤں کے ساتھ تھے۔ آٹھ ہزار میٹر بلندی پر پہنچ کر آکسیجن کی کمی اور خرابی صحت کے باعث ان کے والد نے انہیں نیچے جانے کا کہا۔
ساجد علی سدپارہ نے کہا کہ آخری مرتبہ انہوں نے تینوں کوہ پیماؤں کو جمعے کی دوپہر باٹل نیک کی جانب گامزن دیکھا تھا۔ اور اس کے بعد سے تینوں کوہ پیماؤں کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہے۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تینوں کوہ پیماؤں نے کے-ٹو سر کی ہو گی۔ کیوں کہ باٹل نک کراس کرنے کے بعد سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔
ساجد علی سدپارہ بھی سیکریٹری الپائن کلب آف پاکستان کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام چھ بجے کے قریب جان سنوری کا سیٹلائٹ فون کچھ لمحوں کے لیے آن ہوا تھا۔
وہ یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ تینوں کوہ پیماؤں کو واپسی پر کوئی حادثہ پیش آیا ہو گا۔ کیوں کہ اگر کے-ٹو کی تاریخ دیکھی جائے تو 90 فی صد سے زائد کوہ پیماؤں کے ساتھ حادثات تب ہوتے ہیں۔ جب وہ واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔
کرار حیدری کا کہنا ہے کہ کوہ پیماؤں کو پہلے سے ہی مکمل گائیڈ لائنز دی جاتی ہیں کہ انہوں نے کتنے ٹائم میں پہاڑی سر کرنی ہے۔ کوہ پیما چوٹی کے سر پر صرف چند ہی منٹس گزار سکتے ہیں جس میں وہ بطور سند کچھ تصاویر لینے کے بعد واپس نیچے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ دسمبر کے وسط میں تقریبا 18 ممالک سے 60 کوہ پیماؤں نے موسم سرما میں دنیا کی دوسری بلند چوٹی کو سر کرنے کے لیے ڈیرے ڈالے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ماہ 16 جنوری کو 10 نیپالی کوہ ہیماؤں نے نرمل پُرجا کی قیادت میں تاریخ رقم کی اور پہلی مرتبہ موسم سرما میں کے-ٹو کو سر کیا جس کے بعد علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سد پارہ کے ہمراہ ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن موسم کی خرابی کے باعث انہیں بیس کیمپ میں اترنا پڑا۔
کے-ٹو کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ اب تک اسے سر کرنے کی کوشش میں 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ اٹانس اسکاٹوو بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کی موت بیس کیمپ کی طرف آتے ہوئے رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی تھی۔
اس سے قبل اسی مشن سے منسلک ہسپانوی کوہ پیما بھی ہلاک ہوئے تھے۔