اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے شام کی حکومت اور باغیوں کو مختلف ملکوں کی جانب سے دیے جانے والے ہتھیاروں کی ترسیل پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے شام میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ پائلو سرجیو پنہیرو نے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ شام کے بحران کے تمام فریقوں کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردیں۔
ہفتے کو اقوامِ متحدہ کے ریڈیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے برازیل سے تعلق رکھنے والے سینئر سفارت کار نے کہا کہ شامی بحران کے تمام فریق انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں جن میں سے اب تک کسی ایک کو بھی قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا ہے۔
پنہیرا نے کہا کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور وہاں گزشتہ سوا تین سال سے جاری خانہ جنگی کو صرف بات چیت کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی اور حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
لڑائی کے باعث 40 لاکھ شامی بے گھر ہوکر اندرونِ ملک مارے مارے پھر رہے ہیں جب کہ 20 لاکھ شامی باشندے پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی سے شام کے بیشتر بڑے شہر اجڑ چکے ہیں اور جنگ سے متاثرہ ایک کروڑ سے زائد شامی باشندوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔
شام میں گزشتہ سوا تین سال سے سنی العقیدہ باغی صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں جن کی حکومت کو ایران، روس اور لبنان کی شیعہ مسلح تنظیم 'حزب اللہ' کی مدد حاصل ہے۔
مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ ایران شامی فوج کو بغاوت کچلنے کے لیے اسلحہ اور مشاورت فراہم کر رہا ہے جب کہ 'حزب اللہ' کے ہزاروں جنگجو شامی فوج کے ہمراہ سنی باغیوں کے خلاف لڑائی میں شریک ہیں۔
صدر اسد کی حکومت کے مقابلے پر مغربی ملک بھی شامی حزبِ اختلاف اور باغیوں کو سیاسی اور مالی مدد فراہم کرتے رہے ہیں لیکن باغیوں کو اسلحے کی فراہمی پر ان کے درمیان واضح اختلافات ہیں۔
برسوں سے جاری لڑائی کے بعد اب باغیوں کے درمیان بھی تفریق پیدا ہوچکی ہے اور شدت پسند اور معتدل خیالات کے حامل باغی گزشتہ کئی ماہ سے مختلف علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔