ہر سال دنیا بھر میں ٹی بی کی وجہ سے 17 لاکھ کے قریب افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بھارت میں تب ِ دق کی تشخیص کے لیے خون کا نمونہ حاصل کرنے کا عمل عام ہے ۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ہر سال بھارت میں 20 لاکھ سے زائد افراد تب ِ دق میں مبتلا ہوجا تے ہیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کی جانب سے تب ِ دق کے بارے میں تنبیہ کی وجہ حال ہی میں بھارت میں کیے جانے والے چند طبی مطالعے ہیں ۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ تب ِ دق کے لیے خون کے نمونے لینے کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
http://www.youtube.com/embed/_sKmFibHOZM
وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی وجہ خون کے ٹیسٹ کے وہ غلط نتائج بھی ہو سکتے ہیں جس میں متاثرہ افراد میں تب ِ دق کی تشخیص نہ کی گئی ہو ، جس سے یہ بیماری دوسروں کو لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
واشنگٹن میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے صحت ِ عامہ کے شعبے سے منسلک ایک ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ ڈاؤڈی تب ِ دق پر کی جانے والی تحقیق میں شامل تھے۔ان کا کہناہے کہ خون کے ان ٹیسٹوں کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بعض مریض خون کے نتائج کی وجہ سے بہت سی ایسی ادویات استعمال کر رہے ہیں جو انہیں استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ یا پھر بہت سے مریضوں کے علاج میں اس لیے دیر ہو رہی ہے کہ رپورٹ میں انہیں تندرست قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر ڈاؤڈی کے نزدیک محدب عدسے سے کیے جانے والا بلغم کا روایتی ٹیسٹ ابھی بھی تب ِ دق کی تشخیص کا سب سے سستا اور کارآمد طریقہ ہے۔
مگر وہ کہتے ہیں کہ چونکہ بلغم کا ٹیسٹ کرنے میں وقت لگتا ہے اسی لیے وقت کی بچت کے لیے خون کے نمونوں کی تشخیص کے آسان طریقے کو فوقیت دی جاتی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں خون کے نمونے لینے کا عمل ان ممالک میں پیسہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق ہر سال لاکھوں افراد کے خون کے نمونوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کی جانب سے تپ ِ دق کے علاج کے حوالے سے جاری کردہ نئی ہدایات کے مطابق بھارتی حکومت نے طبی ماہرین، ڈاکٹرز اور لیبارٹریوں میں کام کرنے والے افراد کو کہا ہے کہ وہ تب ِ دق کے لیے خون کے نمونے کے نتائج پر بھروسہ نہ کریں۔
گو کہ بھارت جیسے بڑے ملک میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن بھارت میں موجود طبی ماہرین نے عالمی ادارہ ِ صحت کی تنبہہ پر حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو سراہا ہے۔