امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصبِ صدارت سنبھالنے سے نیٹو کے رکن ملک ترکی میں توقعات کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے اور دو طرفہ تعلقات کو از سرِ نو استوار کرنے کی اُمید نے جنم لیا ہے۔ یہ تعلقات اُن کے پیش رو براک اوباما کے دور میں سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔
ترکی میں حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ عام طور پر امریکہ کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ تاہم اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالِن نے نئے امریکی صدر کا گرمجوشی سے ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا نقطہ نظر ایسا ہے جو’’ اس خطے میں ترکی کی حساس پوزیشن کو تحفظ دے گا۔‘‘
ترکی کے سیاسی کالم نویس سیمی آئی ڈیز ویب سائیٹ ال مانیٹر سے وابستہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اوباما کی صدارت کے دوران دوطرفہ تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ اب اُمید ہے کہ ٹرمپ ان تعلقات کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھا سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’ٹرمپ بہت سے لوگوں کی توقعات کے برعکس اردوان حکومت کی پاسداری کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ ترکی اسی بات پر انحصار کر رہا ہے۔ ان کے دشمن مشترکہ ہیں؛ میرا خیال ہے کہ وہ اس جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔ لہذا، جی ہاں۔ حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے سابق صدر اوباما کی انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ توقعات رکھتی ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم بن علی یلدرم نے پچھلے ہفتے بتایا تھا کہ دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کو کیا کرنا ہو گا۔ اُن کے مطالبات کی فہرست میں امریکہ میں مقیم ترکی کےبنیاد پرست مذہبی راہنما فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنا بھی شامل ہے جن پر گزشتہ جولائی میں ناکام بغاوت کے پس پردہ کام کرنے کا الزام ہے۔
یلدرم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ واشنگٹن شامی کرد گروپ ’پی وائی ڈی‘کی فوجی حمایت بند کرے جو رقّہ پر قبضہ کرنے کیلئے جنگ کر رہا ہے۔ رقّہ کو داعش گروپ نے خود ساختہ طور پر اپنا دارالحکومت قرار دیا ہوا ہے۔ انقرہ ’پی وائی ڈی‘ پر الزام عائد کرتا ہے کہ اُس کے ترکی میں کرد باغیوں کے ساتھ رابطے ہیں۔
گلوبل سورس پارٹنرز کے مشیر اٹیلا ییسی لانڈا خبردار کرتے ہیں کہ انقرہ کو ممکنہ طور پر مایوسی ہو گی، خاص طورپر گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ میں وزیرِ خارجہ کے لیے نامزدریکس ٹِلرسن کی توثیق کے لیے ہونے والی سماعت میں دئے گئے حالیہ بیان کے تناظر میں ترکی کو مایوسی ہو سکتی ہے۔
اٹیلا ییسی لانڈا کہتے ہیں کہ’’گولن کی حوالگی ایک عدالتی معاملہ ہے جس پر ٹرمپ کا زیادہ اختیار نہیں ہے اور ’پی وائی ڈی‘رقّہکی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اچھا کام کر رہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ٹرمپ اس تعلق میں فوری مداخلت کریں گے۔ نئے نامزد وزیرِ خارجہ ریکس ٹِلرسن نے بھی کردوں کو فعال اتحادی قرار دیتے ہوئے اُن کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اخوان المسلمین سے برسرِ پیکار ہو گا اور اخوانالمسلمین اردوان کا حلیف گروپ ہے۔‘‘
کالم نگار آئی ڈیز کہتے ہیں کہ توقعات کو کم کرنے کی ضرورت ہے لیکن ابھی بھی دو طرفہ تعلقات کے بارے میں محتاط انداز میں پُر اُمید ہونے کی وجہ موجود ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ’’اوباما کو ہر چیز کے لیے ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھا جاتا رہا لیکن اس کا کوئی مؤثر نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ یہ ایک مخصوص صورت حال ہے اور اسلئے آپ کو یقیناً مایوسی ہو گی۔لیکن میرے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت آپ کو ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں تبدیلی کا عکس ملے گا اور بہت سے لوگ اس کے منتظر بھی ہیں بجائے اس کے کہ کوئی نجات دہندہ یا جادو کی چھڑی ہو جو ہر صورت حال کو پلک جھپکتے درست کر لے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے بارے میں سوچ بچار کی وجہ سے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے مغربی کنارے اور یروشلم میں اسرائیل کے بستیوں کی تعمیر کے پروگرم کی بھرپور حمایت سے بھی ترکی میں تشویش پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ترک صدر رجب اردوان نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اتوار کے روز کہا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں ٹرمپ سے پریشان کن الفاظ سن رہے ہیں۔