امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے ملک کے دو میڈیا اداروں کے وکلا پر عدالت میں پیش ہونے کے احکام کے بارے میں عوامی گفتگو سے پرہیز کی پابندی عائد کرنے کا معاملہ منظرِ عام پر آنے سے امریکہ میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے حق کو تحفظ فراہم کرنے والی آئین کی پہلی ترمیم سے متعلق بحث میں تیزی آ گئی ہے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ ایشا سرائے کی رپورٹ کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' نے پچھلے ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ سابقہ امریکی حکومت کے اٹارنی جنرل ولیم بار کے زیرِ انتظام امریکی محمکۂ انصاف نے پچھلے برس اس کے قومی سلامتی کے امور پر رپورٹنگ کرنے والے نمائندے کے ای میل ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اور سی این این کے وکلا کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ عوامی سطح پر اس موضوع پر کوئی بات نہیں کریں گے۔
سی این این کے وکیل کے مطابق اس عدالتی حکم کے تحت انہیں اس تحقیق سے متعلق معلومات سے محروم رکھا گیا، نہ ہی انہیں بتایا گیا کہ یہ ریکارڈ کس قسم کی رپورٹنگ کے متعلق تھا اور انہیں اس سے متعلق رپورٹر سے بات کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا تاکہ نشریاتی ادارہ اپنی کوریج سے ہونے والے اثر کو زائل نہ کر سکے۔
امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے پچھلے ہفتے رپورٹ کیا ہے کہ اسے بھی رواں سال مارچ میں ایسا ہی حکم دیا گیا تھا، جب ادارے کے چند بڑے آفسروں کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے اس کے چار رپورٹرز کے ای میل لاگ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اخبار کے مطابق ادارے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کو بھی اس قانونی جنگ کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا جو ٹرمپ انتظامیہ کے آخری ہفتوں میں شروع ہوئی تھی اور جس پر بات کرنے سے پابندی پچھلے ہفتے ہی اٹھائی گئی ہے۔
میڈیا اداروں اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حالیہ ہفتوں میں امریکی محکمۂ انصاف کی ان کوششوں کے بارے میں خبر شائع کی ہے جو وہ معلومات کے لیک ہونے کی تفتیش کے حوالے سے صحافیوں کے ریکارڈز حاصل کرنے کے لیے کر رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ محکمۂ انصاف کی جانب سے ان اداروں کے رپورٹرز کے ای میل لاگز کو ان کے سورسز یعنی ذرائع کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
میڈیا اور قانون کے ماہرین نے امریکی محکمۂ انصاف کے ان اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے رپورٹرز کے فون ریکارڈ کی طلبی کا معاملہ ہے کیا؟وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امریکہ کے نیشنل پریس کلب کی صدر لیزا میتھیوز نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ سال 2021 میں جب امریکہ نے کئی میدانوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، نیوز میڈیا کو ہمارے اپنے ملک میں حکومت کی جانب سے پریس کی بنیادی آزادیوں کے حوالے سے پابندیوں کا سامنا ہے۔
نیویارک ٹائمز کو قانونی مشاورت فراہم کرنے والے ادارے گبسن، ڈن اور کروچر میں شراکت دار اور قانونی ماہر تھیوڈور بوٹروس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بات کرنے پر ایسی پابندی کی ماضی میں "کوئی مثال نہیں" رہی۔
ان کے مطابق جب اہم معلومات کے عام ہونے کے کسی معاملے کی تفتیش ہوتی ہے تو سب کو اس کی خبر ہوتی ہے۔
تھیوڈور بوٹروس نے کہا کہ محکمہ انصاف کی جانب سے یہ اقدام 'امریکی آئین کی پہلی ترمیم سے متصادم ہے۔'
امریکی محکمۂ انصاف نے وائس آف امریکہ کی جانب سے رابطہ کرنے پر اس معاملے پر ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی محکمۂ انصاف کی گائیڈ لائنز کے مطابق کسی بھی رپورٹر کے ریکارڈ حاصل کرنے یا کسی قسم کے نیوز ریکارڈ حاصل کرنے کی اجازت امریکی اٹارنی جنرل کی جانب سے انتہائی غیر معمولی اقدام کے طور پر ہی دی جا سکتی ہے اور ایسا معمول کے تفتیشی عمل کے طور پر نہیں کیا جا سکتا۔
ان گائیڈ لائنز کے مطابق ایسی صورت میں متعلقہ صحافی اور خبروں کے ادارے کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے سوائے اس کے کہ ایسا کرنے سے تفتیشی عمل کو واضح یا قابل ذکر خطرات لاحق ہوں، قومی سلامتی کے لئے خطرات ہوں یا کسی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم حالیہ ہفتوں کے دوران سامنے آنے والے ان کیسز میں ان امریکی میڈیا اداروں کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کرنے سے متعلق پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور دو کیسز میں ان میڈیا اداروں کے وکلا پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی تھی کہ وہ اس بارے میں کسی عوامی فورم پر کوئی بات نہیں کریں گے۔
گو کہ 'سی این این' کے ساتھ اس سال جنوری میں اس معاملے پر سمجھوتہ ہو گیا تھا، ادارے کے افسران پر ان ہزاروں ای میلز سے متعلق مہینوں سے چلنے والی قانونی جنگ پر بات کرنے کی پابندی پچھلے ہفتے ہی اٹھائی گئی ہے۔
حال ہی میں بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکی محکمۂ انصاف کو پابند کیا جائے گا کہ رپورٹرز کے ذرائع جاننے کے لیے ان کے ریکارڈز کے حصول کی کوشش نہ کی جائے۔
امریکہ میں میڈیا کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ معلومات افشا ہونے کے معاملات کی تفتیش سے متعلق ایسے اقدامات اوباما انتظامیہ کے دور میں شروع ہوئے، جنہیں ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں جاری رکھا گیا۔
گو کہ میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے اکثر گروپ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایسے اقدامات نہ کرنے کی یقین دہانی کا خیر مقدم کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں روکنے کے لیے زیادہ ٹھوس اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔
فریڈم آف پریس فاونڈیشن نامی غیر سرکاری ادارے کے مطابق امریکہ میں گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں ایسی پابندیوں کے اثرات تفتیشی صحافت یا انویسٹی گیٹو رپورٹنگ کے لیے منفی ثابت ہوئے، لیکن ادارے کے مطابق، "اصل بات یقیناً تفصیلات میں ہے۔"
SEE ALSO: جارج فلائیڈ کی ہلاکت کی ویڈیو بنانے والی سٹیزن جرنلسٹ کے لیے 'پلٹزر' کا اعلانفریڈم آف پریس فاونڈیشن نام کا یہ غیر سرکاری ادارہ مفادِ عامہ سے متعلق کی جانے والی صحافت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔
ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹریور ٹمز نے اس مہینے ایک بیان میں لکھا ہے کہ امریکی محکمۂ انصاف کو اب صحافیوں کی نگرانی سے متعلق یہ باقاعدہ ہدایات اپنی سرکاری 'میڈیا گائیڈ لائنز' میں درج کرنی چاہیں، اور کانگریس کو ان ضوابط کو قانونی شکل دینی چاہیے تاکہ کوئی امریکی 'انتظامیہ اپنی طاقت کا بے جا استعمال نہ کر سکے۔'
ٹریور ٹمز نے لکھا ہے کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو بائیڈن انتطامیہ دس سال سے زائد عرصے سے امریکہ میں آزادیٔ صحافت کے لیے کم ہوتی گنجائش کی صورتِ حال بہتر بنانے کے قابل ہو سکے گی۔