بھارتی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلم طالبات کی جانب سے دائر درخواست پر بڑا بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ عدالت نے ہائی کورٹ رجسٹر ی کو یہ معاملہ بھارت کے چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔
بدھ کو ہونے والی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل نے طالبات کی جانب سے دائر درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ وہ حجاب پر عائد پابندی برقرار رکھے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس کے کرشنا دیکشت نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ مخصوص پرسنل لاز کی روشنی میں اس معاملے میں بنیادی اہمیت کے کچھ آئینی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
جسٹس دیکشت نے اپنے حکم میں کہا کہ عدالت کی رجسٹری کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ یہ معاملہ فوری غور و خوض کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے رکھے۔ تاہم حجاب پہننے کی عبوری اجازت دینے کی درخواست کی سماعت بڑا بینچ کرے گا۔
بدھ کو ہونے والی سماعت میں فریقین کے وکلا نے عدالت میں دلائل دیے ۔
خیال رہے کہ کرناٹک میں کالجز طالبات کے حجاب پہننے کے معاملے میں اب مزید شدت آ گئی ہے۔ ریاست میں مذہبی فسادات کے خدشے کے پیشِ نظر تمام کالجز کو پہلے ہی تین روز کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
ریاست کے جنوبی علاقے شیو موگا میں منگل کو اس وقت حالات کشیدہ ہو گئے جب طلبہ کے دو گروپوں کے درمیان پتھراؤ ہوا۔ پتھراؤ میں کئی طلبہ زخمی ہو گئے۔
رپورٹس کے مطابق پولیس نے طلبہ پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور کم از کم 18 طلبہ کو حراست میں لے لیا۔
حجاب مخالف طلبہ نے کالج کے میدان میں آویزاں بھارت کا قومی پرچم اتار کر اس کی جگہ انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا کیسری جھنڈا لہرا دیا جسے بعدازاں پولیس کی مداخلت پر ہٹا دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق رائچور اور باگلکوٹ میں بھی حجاب مخالف مظاہرے ہو ئے۔
ادھر بنگلور میں انتظامیہ نے تمام تعلیمی اداروں کے نزدیک احتجاجی مظاہروں پر دو ہفتے کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔
ریاست کے وزیرِ اعلیٰ بسو راج بومئی نے منگل کو تمام اسکولوں اور کالجوں کو تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے طلبہ سے امن قائم رکھنے کی اپیل بھی کی۔
دریں اثنا کرناٹک کے وزیرِ اعلٰی بی سی ناگیش نے منگل کو برقع پوش مسلمان طالبہ کی وائرل ویڈیو کے حوالے سے کہا کہ جب مذکورہ طالبہ نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے تو اس وقت کوئی دوسرا طالبِ علم اس کے قریب نہیں تھا۔
منگل کو ریاست کرناٹک کے شہر مندیا کے پری یونیورسٹی کالج میں کیسرانی رنگ کے رومال گلے میں لپیٹے چند ہندو نوجوانوں نے ایک باحجاب طالبہ مسکان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔ نوجوانوں نے طالبہ کے سامنے کھڑےہو کر 'جے شری رام' کے نعرے لگائے اور طالبہ نے ان نعروں کا جواب 'اللہ اکبر' کے نعرے سے دیا۔ اسی اثنا میں کالج کا عملہ طالبہ کو لڑکوں کے نرغے سے دور لے گیا۔
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا طالبہ کو اللہ اکبر کا نعرہ لگانے کے لیے اکسایا گیا؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کالج کیمپس میں اللہ اکبر اور جے شری رام کے نعرے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حجاب تنازع دوسری ریاستوں تک پھیل گیا
رپورٹس کے مطابق حجاب تنازع اب کرناٹک کی پڑوسی ریاستوں مدھیہ پردیش اور پڈوچری میں بھی پھیل گیا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔
مدھیہ پردیش کے ایک وزیر نے تعلیمی اداروں میں یکساں یونیفارم کی وکالت کی۔ ریاست کے اسکولی تعلیم کے وزیر اندر سنگھ پرمار کے مطابق حکومت نظم و ضبط یقینی بنانے کو ترجیح دے گی۔ حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں ہے لہذٰا اس پر پابندی برقرار رہنی چاہیے۔
ادھر پڈوچری میں ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ایک ترجمان کے مطابق طلبہ کے ایک گروپ اور دیگر تنظیموں نے ان سے شکایت کی ہے کہ ایک ٹیچر کی جانب سے حجاب پہننے پر مبینہ طور پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔
ایک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی طلبہ شاخ کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نے الزام عائد کیا ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طلبہ شاخ آل انڈیا ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے ارکان نے طلبہ کو مشتعل کرنے کے لیے کیسری رومال فراہم کیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی، اے بی وی پی اور دیگر ہندو تنظیمیں کرناٹک میں تشدد کی ذمہ دار ہیں۔
اے بی وی پی یا بی جے پی کی جانب سے اس الزام کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔
بھارت میں جہاں حجاب کے معاملے پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں وہیں یہ معاملہ عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی موضوع بنا ہوا ہے جب کہ مختلف اہم شخصیات بھی اس پر اظہارِ خیال کر رہی ہیں۔
نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور حجاب کی حمایت میں ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حجاب پوش مسلم طالبات کو تعلیم سے محروم کرنا خوفناک ہے۔
انہوں نے بھارتی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ مسلم خواتین کو دیوار کے ساتھ لگانے کا سلسلہ بند کریں۔
کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے حجاب کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق خواتین کو ہے کہ وہ کیا پہنیں اور کیا نہ پہنیں۔ وہ گھونگھٹ نکالیں یا حجاب پہنیں اس کا فیصلہ انہیں کرنا ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ طالبات لمبے عرصے سے حجاب پہن رہی ہیں۔ ان کے مطابق یہ ان کا آئینی حق ہے اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
'کلاس رومز میں مذہبی تفریق نہیں ہونی چاہیے'
دہلی یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر لکشمن یادو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس ملک میں تعلیمی اصلاح کی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ البتہ اب تعلیم کو فرقہ وارانہ سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو خطرناک ہے۔ بھارت کے کلاس رومز کبھی بھی مذہبی تفریق کی تجربہ گاہ نہیں رہے۔
انہوں نے کہا کہ حجاب مناسب ہے یا نہیں یہ سماجی و تہذیبی بحث ہے۔ اس پر الگ سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق تعلیمی اداروں کو مذہبی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کسی بھی شخص کے تعلیم پانے کے حق کو اس کے مذہب یا ذات برادری کی بنیاد پر نہیں چھینا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے بچوں کو اچھی تعلیم کی ضرورت ہے لیکن سیاسی مقاصد کے پیشِ نظر انہیں ایک بھیڑ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ تاکہ یہ نوجوان تعلیم اور روزگار کے بارے میں بات کرنے کے بجائے مذہب کی بات کریں۔
'لباس کی بنیاد پر کسی کو تعلیم سے محروم نہیں کیا جا سکتا'
انسانی حقوق کے کارکن اور فورم فار سول رائٹس کے چیئرمین سید منصور آغا نے کہا کہ لباس کی بنیاد پر کسی کو تعلیم کے حصول سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی آئین نے تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیا ہے۔ لیکن کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب کی مخالفت کرکے دراصل آئین کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ مسلم لڑکیوں کے حجاب کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ان کے سامنے کیسری رومال والے طلبہ کو کھڑا کر دیا گیا ہے۔ یہ ملک اور نوجوانوں کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
بقول ان کے خطرہ یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ زیادہ بڑھا اور دوسری ریاستوں میں بھی احتجاج ہونے لگا تو اس کا براہ راست فائدہ بی جے پی اٹھائے گی۔