امریکہ نے سات فروری کو داعش کی خراسان شاخ کے سربراہ ثنا اللہ غفاری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو ایک کروڑ ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
ثنااللہ غفاری کون ہیں اور وہ شدت پسند تنظیم کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں اور اس وقت افغانستان میں داعش کتنا اثرورسوخ رکھتی ہے آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
داعش کی افغانستان، پاکستان اور دیگر قریبی جنوبی ایشیائی ملکوں پرمشتمل خراسان شاخ کے سربراہ ثنا اللہ غفاری جہادی حلقوں میں شہاب المہاجر کے نام سے مشہور ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے جاری کردہ اعلان میں یہ بھی کہا گیاہے کہ کابل ایئرپورٹ پر 26 اگست کو ہونے والے خودکش حملے کے مرتکب افراد کی گرفتاری میں مدد کرنے والے کوبھی ایک کروڑ ڈالر انعام دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 26 اگست کو کابل ایئر پورٹ کے باہر ہونے والے ہولناک خود کش حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 180 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر وہ افغان شہری تھے جو طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد ملک سے باہر جانے کے خواہش مند تھے۔ داعش خراسان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق ثنا اللہ غفاری کو نومبر 2020 میں داعش خراسان کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ پورے افغانستان میں شدت پسند گروہ کی تمام کارروائیوں کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کے لیے ضروری فنڈںگ حاصل کرنے کے ذمے دار ہیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی حکومت کے یہ اقدامات افغانستان کو دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردی کے پلیٹ فارم نہ بننے سے روکنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے داعش خراسان کے سربراہ کے حوالے سے انعام کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب افغانستان میں طالبان حکومت نے بھی داعش کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر رکھا ہے۔ ان کارروائیوں میں داعش کے متعدد ارکان کو ہلاک یا گرفتار کرنے کے دعوے بھی کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ نومبر میں امریکی وزارتِ خارجہ نے ثنا اللہ غفاری، داعش کے ترجمان سلطان عزیز اور کابل کے رہنما مولوی رجب کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جب کہ تینوں ارکان کےعلاوہ داعش کے بین الاقوامی معاون عصمت اللہ پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔
ثنا اللہ غفاری کون ہے؟
داعش خراسان کے سربراہ ثنا اللہ غفاری کا تعلق کابل کے شمال میں واقع ضلع شکر درہ سے ہے۔ اُنہوں نے کابل یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
امریکہ کی ملٹری اکیڈمی ’ویسٹ پوائنٹ‘ کے کامبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کی داعش خراسان پر ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ثنا اللہ غفاری کے خاندان کا تعلق گلبدین حکمت یار کی جماعت حزبِ اسلامی سے تھا۔ لیکن وہ خود کابل یونیورسٹی ہی میں ایک استاد اور افغانستان میں سلفی مکتبِِ فکر کے مذہبی رہنما شیخ ابو عبیداللہ متوکل سے متاثر تھے۔
یہ وہی ابو عبیداللہ متوکل ہیں جن کی تشدد زدہ لاش طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد ضلع پغمان کی حدود سے ملی تھی۔ اس کارروائی کو سلفی مکتبِ فکر نے طالبان کی انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔ البتہ طالبان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
شیخ متوکل پر اشرف غنی حکومت نے بھی داعش خراسان کی حمایت کے الزامات لگائے جس کی وجہ سے انہوں نے طویل عرصہ قید کاٹی مگر طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد جیلوں میں قیدیوں کی رہائی کے موقع پروہ بھی جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
کامبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ثنا اللہ غفاری نے حزبِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بعد میں طالبان میں حقانی نیٹ ورک کے دھڑے سے وابستہ رہے۔ جب داعش نے افغانستان میں اپنی شاخ کا اعلان کیا تو ثنا اللہ غفاری اس میں شامل ہوگئے اورشدت پسند گروہ کے کابل نیٹ ورک کے نائب رہنما بن گئے۔
ثنا اللہ غفاری جون 2020 میں شدت پسند گروہ کی خراسان شاخ کے سربراہ بنے جس کی خبر افغان صحافی بلال سروری نے سب سے پہلے دی۔ داعش کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں ثنا اللہ غفاری کا نام شہاب المہاجر لکھا گیا۔
ثنا اللہ غفاری کی سربراہی سنبھالنے کے بعد افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا اور شدت پسند گروپ نے حکومت اور طالبان رہنماؤں پر حملوں کے ساتھ ساتھ جیل میں قید ساتھیوں کی رہائی کی کوششیں بھی تیز کر دیں۔
ثںا اللہ غفاری کا اصل نام ظاہر کیوں نہیں کیا گیا؟
داعش کے امور پر گہری نظر رکھنے والے اطالوی محقق والے ریکارڈو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش خراسان نے شروع ہی سے ثنا اللہ غفاری کی اصل شناخت کو چھپانے کی کوشش کی جس کی وجہ شاید اُن کی سیکیورٹی تھی۔
ان کے بقول ثنا اللہ غفاری کو صرف ایک ہی مرتبہ داعش خراسان کے ایک نان آفیشل میڈیا چینل پرجاری کی گئی ایک دھندلی ویڈیو میں دیکھا گیا۔
والے ریکارڈو کہتے ہیں کہ المہاجر کا نام استعمال کرکے داعش خراسان کے سربراہ کے حوالے سے شکوک و شہبات پیدا کیے گئے جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید اُن کا تعلق عراق سے ہے یا شاید وہ پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اُن کے بقول ماضی میں ثنا اللہ غفاری کے آڈیو پیغامات شدت پسند گروہ کے ترجمان سلطان عزیزعزام پشتو میں پڑھتے تھے جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ دری زبان روانی سے نہیں بول سکتے۔ مگر 2021 کے اوائل میں اُن کی دری زبان میں لکھی گئی دو کتابیں سامنے آئیں جس میں افغانستان میں داعش کی اہمیت اور مستقبل کے لائحہ عمل کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکی حکومت نے پہلی بار شہاب المہاجر کی اصل شناخت ثنا اللہ غفاری ظاہر کی تو داعش خراسان نے ایک کتابچے کے ذریعے المہاجر کی شناخت اورحقانی نیٹ ورک سے سابقہ وابستگی کی تردید کی ۔
'والے ریکارڈو' کا کہناہے کہ ثنا اللہ غفاری داعش کے مرکزی اہم رہنماؤں میں شمارکیے جاتے ہیں جن کا اثر ونفوذ اب خراسان شاخ سے بڑھ کردیگرخطوں تک پھیل چکاہے۔
افغانستان میں داعش کی موجودہ صورتِ حال
امریکہ کی جانب سے انعام کے اعلان سے دو روز قبل اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ایک تازہ رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد 4000 کے لگ بھگ ہے۔ جن میں بڑی تعداد طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد جیلوں کو توڑے جانے کے سبب رہائی پانے والے جنگجوؤں کی ہے۔
رپورٹ میں دعوٰیٰ کیا گیاہے کہ داعش کی مرکزی قیادت نے افغانستان میں فعال داعش کے لیے پانچ لاکھ ڈالرز مختص کیے ہیں اور یہ رقوم حوالہ کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد داعش ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) نامی شدت پسند گروہ لوگوں کو داعش کی ایغور ٹیم کی مدد سے بھرتی کر رہی ہے تاکہ خطے میں اپنی موجودگی کو بڑھا سکے۔
ای ٹی آئی ایم ایک اسلامی علیحدگی پسند گروہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں کافی فعال ہے۔ چین میں حکومت کے کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے ای ٹی آئی ایم کے اراکین 90 کی دہائی میں افغانستان منتقل ہوئے تھے جنہیں افغان طالبان نے پناہ دے رکھی ہے۔
داعش خراسان کب بنی؟
داعش نے پاکستان اور افغانستان کے لیے 'خراسان' کے نام سے تنظیم 2015 میں تشکیل دی تھی۔ پاکستان میں داعش کو پہلے مرحلے میں اس وقت کامیابی حاصل ہوئی تھی جب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے ، لشکرِ جھنگوی اور لشکرِ جهنگوی العالمی نے باضابطه
طور پر داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیعت کی تھی۔
افغان صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والے ایک افغان صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2014 میں پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے شدت افغانستان کے ملحقہ صوبوں ننگرہار اور کنڑ منتقل ہو گئے، جہاں افغان طالبان سے الگ ہونے والے رہنماؤں اورشدت پسندوں نے ساتھ مل کر ان صوبوں کو داعش کا گڑھ بنا دیا۔
صحافی نے مزید بتایا کہ داعش نے اپنا نظم تشکیل کرکے افغان طالبان اور افغان حکومتی فورسز کے خلاف شدید جنگیں شروع کیں اور دونوں صوبوں کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
ان کا کہناہے کہ ننگرہار اور کنڑ میں سلفی مکتبِ فکر کے علمائے کرام کی بھی داعش کو حمایت حاصل تھی۔ البتہ افغان طالبان، افغان سیکیورٹی فورسز اور امریکی فضائی حملوں کی وجہ سے داعش فرور ی 2020 میں تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔
اُن کے بقول امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں امن معاہدہ ہوتے ہی داعش خراسان نے دوبارہ فعال ہونے کی کوششیں شروع کی اور دونوں فریقین کے مابین سیاسی پیش رفت کو روکنے کے لیے اپنے حملوں کے ذریعے ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔
افغان صحافی کہتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد داعش خراسان دوبارہ فعال ہو چکی ہے اورکابل، قندھار، قندوز اور ننگرہار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اپنے حملوں کے ذریعے طالبان کی حکمرانی کو چیلنج کر رہی ہے۔