یروشلم کے مقدس مقامات کی اہمیت اور تاریخ کیا ہے؟

(فائل فوٹو)

اسرائیل اور فلسطنیوں کے درمیان جاری کشیدگی کا ایک تاریخی پسِ منظر ہے اور موجودہ صورتِ حال گزشتہ ایک صدی میں پیش آنے والے واقعات کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔

اس تنازع کو سمجھنے کے لیے اس علاقے میں واقع مذہبی مقامات کی اہمیت سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ یروشلم کا تاریخی شہر، جسے اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں، تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر ہے۔

قبۃ الصخرا اور مسجدِ اقصیٰ

مسجدِ اقصیٰ کا نام آتے ہی ایک سنہرا گنبد ذہن میں آتا ہے۔ یہ 'قبۃ الصخرا' ہے جو کہ 35 ایکڑ پر پھیلے اس وسیع احاطے میں شامل ہے جسے مسلمان مسجدِ اقصیٰ یا حرم الشریف اور یہودی 'ٹیمپل ماؤنٹ' کہتے ہیں۔

مشرقی یروشلم کے قدیم شہر کے اس حصے کو مسیحی، یہودی اور مسلمان تینوں ہی مقدس مانتے ہیں۔

قبۃ الصخرا یا 'ڈوم آف دی راک' اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ساتویں صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا۔ بہت سے لوگ اس گنبد کی وجہ سے اسے مسجدِ اقصیٰ سمجھتے ہیں لیکن یہ گنبد مسجد کا نہیں بلکہ اس علاقے میں تعمیر کی گئی مسلمانوں کی پہلی نمایاں یادگار ہے جسے آج یروشلم کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔

فائل فوٹو

مسلم روایات کے مطابق پیغمبرِ اسلام مکہ سے اس مقام پر پہنچے تھے اور پھر یہاں سے انہوں نے آسمانوں کی جانب 'معراج' کا سفر کیا تھا۔

اسرائیلی روایات کے مطابق پیغمبر ابراہیم نے اس مقام پر اپنے بیٹے پیغمبر اسحاق کی قربانی دینے کی تیاری کی تھی۔ جب کہ اسلامی روایات کے مطابق پیغمبر ابراہیم نے خدا کے حکم پر اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی کا ارادہ کیا تھا یہ واقعہ مکہ کے نواح میں پیش آیا تھا۔


ٹیمپل ماؤنٹ کے تقدس کے حوالے سے یہودیوں کے ہاں اور بھی کئی روایات پائی جاتی ہیں۔

’قبۃ الصخرا‘ پر لکھی تحریر کے مطابق مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے کے 55 برس بعد 691 سے 692 عیسوی کے درمیان اسے تعمیر کیا گیا۔ اس فتح سے قبل یروشلم بازنطینی سلطنت کا حصہ تھا اور یہاں مسیحی آبادی کی اکثریت تھی۔

انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا کے مطابق اس گنبد کی تعمیر کے مقصد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ نہ تو یہ مسجد کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی کسی دیگر مذہبی تعمیرات کے زمرے میں آتا ہے۔

مختلف ادوار میں اس کی تعمیرِ نو ہوتی رہی۔ سولہویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان سلیمان اوّل نے عمارت کے بیرونی حصے پر ٹائلیں لگوا کر اس کی تزئین و آرائش کرائی۔

بیسویں صدی میں اردن کے ہاشمی شاہی خاندان نے دوبارہ اس کی تزئین و آرائش کی اور گنبد پر سونا چڑھایا۔

اسی احاطے میں قبۃ الصخرا کے سامنے ٹیمپل ماؤنٹ کے جنوب میں ایک نقرئی (سلور) گنبد والی عمارت ہے جو بنیادی طور پر مسجد اقصیٰ ہے۔ اسے 'قبلی مسجد' بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ مسلمان اس پورے احاطے کو ہی الاقصیٰ کہتے ہیں۔

مسلمانوں کے نزدیک مسجدِ اقصیٰ مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ میں مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

پانچ ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والی اس مسجد کی تعمیر آٹھویں صدی میں مکمل ہوئی تھی۔

احاطے کے مغرب میں 'دیوارِ گریہ' ہے جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں اور زائرین بھی یہاں آتے ہیں۔

دیوارِ گریہ (فائل فوٹو)

یہودیوں کی تاریخی روایات کے مطابق یہ دیوار اور اس کے ارد گرد کی تعمیرات اس بڑے معبد 'ٹیمپل ماؤنٹ' کی باقیات ہیں جہاں یہودیوں کے مقدس معبد قائم تھے جنہیں پہلے بابلیوں اور بعد میں بازنطینیوں نے منہدم کر دیا تھا۔

چوں کہ یہ دیوار بھی اب اس احاطے کی بڑی دیواروں میں شامل ہو چکی ہے جس میں مسلمانوں کی تعمیرات قبۃ الصخرا اور مسجدِ اقصیٰ بھی شامل ہیں، اس لیے دیوار پر اختیار اور یہاں رسائی کے حوالے سے عربوں اور یہودیوں میں تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔

مسجد کا انتظام کس کے پاس ہے؟

اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اُردن سے مشرقی یروشلم اور قدیم شہر کا علاقہ حاصل کر لیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے اسے متحدہ یروشلم قرار دے کر اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو تاحال بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

البتہ امریکہ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکا ہے اور اس نے اپنا سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا ہے۔

مشرقی یروشلم اسرائیل کے زیرِ انتظام آنے کے بعد الاقصیٰ کو معاہدے کے تحت ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا جسے اُردن چلاتا ہے۔

قبۃ الصخرا اور اقصیٰ مسجد دونوں اس ٹرسٹ (وقف) کے زیرِ انتظام آتے ہیں۔ سن 1994 میں ہونے والے معاہدے میں اسرائیل نے اس حوالے سے ایک بار پھر اُردن کا کردار تسلیم کیا۔

فائل فوٹو

اس احاطے میں اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز موجود رہتی ہیں اور وقف کے ساتھ معاونت بھی کرتی ہیں۔ یہاں مسیحیوں اور یہودیوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ لیکن معاہدے کے تحت صرف مسلمان ہی عبادت کر سکتے ہیں۔

تاہم مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے رہنے والوں کو مسجد کے احاطے میں داخل ہونے سے قبل یروشلم کی حدود میں داخلے کے لیے اسرائیل سے اجازت لینا ہوتی ہے۔

حالیہ تصادم ماضی سے مختلف کیوں؟

ماضی میں اس احاطے میں مقدس مقامات سے متعلق مختلف تنازعات سامنے آتے رہے ہیں جن کے بعد کشیدگی اور تصادم نے بھی جنم لیا۔ لیکن اس بار الاقصیٰ میں گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والی کشیدگی کے اسباب اس احاطے سے باہر تھے۔

'نیویارک ٹائمز' کے مطابق یروشلم کے قدیم شہر میں چند ہفتوں قبل اسرائیلیوں اور فلسطینیوں میں ایک تصادم ہوا تھا۔ اس کے علاہ فلسطنیوں کو رمضان میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے روک ٹوک پر بھی تحفظات تھے۔

لیکن مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں جب فلسطینیوں کی ممکنہ بے دخلی کے لیے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ آباد کاروں نے پیش قدمی شروع کی تو کشیدگی شدید ہو گئی۔

اسرائیل اور فلسطینیوں میں جاری کشیدگی ایسے حالات میں پیدا ہوئی ہے جب گزشتہ چار برسوں میں اسرائیل میں ہونے والے چار انتخابات فیصلہ کُن ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے ہیں۔ فلسطین میں یہ انتخابات 2006 کے بعد منعقد ہونا تھے۔