اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس کی فضائی فورس کے علاوہ زمینی فوج بھی جمعے کو غزہ کی پٹی پر حملوں میں شامل ہو گئی ہے۔ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر غور کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اتوار کو طلب کر لیا گیا ہے۔
اسرائیل کی دفاعی فورسز نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اس کی فوج غزہ کی پٹی پر حملے کر رہی ہے۔ لیکن بعد میں اسے "کمیونی کیشن کی غلطی" قرار دیتے ہوئے اسرائیل نے واضح کیا کہ اس کی زمینی فوج اسرائیلی سرحد کے اندر رہتے ہوئے غزہ پر گولہ باری کر رہی ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ حماس کو بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ ان کے بقول "ہم یہی کر رہے ہیں اور بھرپور طاقت کے ساتھ کرتے رہیں گے۔"
غزہ کے سرحدی علاقوں کے قریب رہنے والوں نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اب تک اسرائیلی فوج کو غزہ کے علاقے کے اندر داخل ہوتے نہیں دیکھا۔ تاہم لوگوں نے کہا کہ بھاری گولہ باری اور فضائی حملے ہو رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری جھڑپوں کے پانچویں دن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتوار کو ایک اجلاس میں اس صورتِ حال پر بحث کرے گی۔
اس سے قبل امریکہ نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
تاہم جمعرات کو سلامی کونسل کے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے امریکہ کی اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ اعلیٰ ترین سفارت کاری کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان عید الفطر کے موقع پر بھی جاری رہنے والی اس لڑائی میں اب تک 103 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 27 بچے اور 11 خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ان ہلاکتوں کے علاوہ 530 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ایک چھ سالہ بچے سمیت سات اسرائیلی حماس کے راکٹوں کے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
دریں اثنا اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ لبنان سے بھی اسرائیل کی طرف تین راکٹ داغے گئے تھے لیکن وہ بحیرۂ روم میں گر کر تباہ ہوگئے اور ان سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
جمعرات کو بھی فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل کے علاقوں پر راکٹ داغے جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے کیے۔
حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم اسرائیل کی فوج اور ٹینکوں کے بارڈر پر جمع ہونے اور زمینی حملے سے خائف نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ پر زمینی حملہ حماس کے لیے زیادہ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو مارنے یا انہیں زندہ پکڑنے کا موقع ہوگا۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ لڑائی کو 2014 کے بعد فریقین کے درمیان اب تک کی سب سے شدید لڑائی قرار دیا جا رہا ہے۔ تشدد کا آغاز مشرقی یروشلم میں یہودی آباد کاروں کی جانب سے عرب رہائشی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کی کوششوں سے ہوا تھا۔
یہ تنازع مغربی کنارے تک جا پہنچا ہے جہاں کئی شہروں میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان تصادم ہوا ہے۔ جھڑپوں کے پیشِ نظر حکام نے وسطی شہر 'لُد' میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
دریں اثنا لڑائی کے خاتمے کی عالمی کوششوں میں ایک پیش رفت ہوئی ہے۔ مصری انٹیلی جنس کے مطابق مصر کے سیکیورٹی حکام نے غزہ میں حماس کے رہنماؤں اور تل ابیب میں اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔
لڑائی پر امریکہ کا ردِعمل
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی پر امریکی ردِ عمل کو بعض حلقے ناکافی قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کر رہے ہیں۔ لیکن امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو اس کے بس میں ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں بدھ کو صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ لڑائی جلد ختم ہو جائے گی۔
دوسری جانب امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بدھ کو اپنے اسرائیلی ہم منصب بنیامین گانتز سے بات کی جس کے بعد امریکی محکمۂ دفاع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ آسٹن نے اسرائیل کے اپنے اور اپنے لوگوں کے دفاع کے حق کے لیے امریکہ کی آہنی حمایت کا اعادہ کیا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ آسٹن نے حماس اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کی طرف سے اسرائیلی شہریوں پر راکٹوں کے حملوں کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے لڑائی میں شامل تمام فریقین کی جانب سے امن کی بحالی کے لیے اقدامات کی اہمیت کا بھی اعادہ کیا۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے گفتگو کے دوران حماس کے حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ بلنکن نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فلسطینیوں کو تحفظ کی زندگی گزارنے کا حق بھی لازمی طور پر حاصل ہونا چاہیے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اسرائیل اور فلسطینی امور کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ھادی عمر کو فوراً مشرق وسطیٰ روانہ ہونے کی ہدایت کی ہے جہاں وہ دونوں اطراف کے حکام پر تناؤ کی صورتِ حال کو کم کرنے پر زور دیں گے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے غزہ سے اسرائیلی آبادی پر بلاتفریق کیے گئے راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ضبط سے کام لے۔