سفیر رچرڈ ہالبروک کا اچانک انتقال ایسے وقت ہوا ہے جو جنوبی ایشیا میں امریکہ کی پالیسی سازی کے لیئے بہت اہم ہے ۔ یہ وہ وقت ہے جب اوباما انتظامیہ کی طرف سے افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی کا جائزہ آخری مراحل میں ہے ۔افغانستان کے لیئے امریکی پالیسی کی تشکیل میں ہالبروک کو مرکزی حیثیت حاصل تھی لیکن ان کی زندگی کا یہ سب سے بڑا چیلنج ادھورا رہ گیا۔
رچرڈ ہالبروک کو بعض حلقوں میں بُل ڈوزر کہا جاتا تھا کیوں کہ انہیں متحارب فریقوں کو آمنے سامنے بٹھا کر تنازعات طے کرانے کا فن آتا تھا۔ بلا شبہ ، ان کا اہم ترین کارنامہ 1995 کا ڈے ٹن امن سمجھوتہ تھا جس کی بدولت بوسنیا کی جنگ ختم ہوئی۔ان کی انتھک ڈانٹ ڈپٹ اور خوشآمد کے نتیجے میں 14 دسمبر، 1995 کو ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے ۔ ان کے اس کارنامے کی پندرھویں سالگرہ میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گڈسن کہتے ہیں کہ امید یہ تھی کہ ہالبروک اپنی وہی مہارتیں افغانستان اور اس کے ہمسایے پاکستان کے الجھے ہوئے مسئلے کے حل میں استعمال کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ مہارتیں جن کا مظاہرہ انھوں نے ڈے ٹن سمجھوتوں میں یا اقوام متحدہ میں ، اپنے کیریئر کے دوران کئی بار کیا تھا، وہی مہارتیں وہ افغانستان میں استعمال کر رہے تھے، یا مستقبل میں کر سکتے تھے۔
لیکن کیا ہالبروک افغانستان میں فریقین کو ڈے ٹن کی طرح کے سمجھوتے کے لیئے تیار کر سکتے تھے؟ امریکی محکمۂ خارجہ کی سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری ٹریسا شیفر کہتی ہیں کہ اس کا امکان کم ہی تھا۔
ان کا کہناتھا کہ بلقان کے علاقے میں آپ تین بڑے بد معاشوں کی نشاندہی کر سکتے تھے اور پھر انہیں کمرے میں بٹھا کر ان سے بات منوا سکتے تھے۔ افغانستان میں آپ کا سابقہ بہت زیادہ کرداروں سے ہے اور میرے خیال میں ان کے لیئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ یہ بات انھوں نے دوسرے لوگوں سے بھی کہی تھی۔ افغانستان میں کسی کو کوئی مخصوص لائحۂ عمل اختیار کرنے کے لیئے مجبور کرنا بہت مشکل کام ہے ۔
ایسے وقت میں جب امریکہ اگلے سال فوجیں واپس بلانے یا کم از کم انھیں مختلف طریقے سے تعینات کرنے ، اور سیکورٹی کی ذمہ داریاں افغانوں کے حوالے کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے، افغانستان کی صورت حال کسی حد تک غیر واضح ہے۔ سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پولیس اور فوج کے سپاہیوں کی تربیت کی رفتار سست ہے۔اس کے علاوہ، صدر حامد کرزئی اور طالبان کے کچھ عناصر کے درمیان سیاسی تصفیے کے باتیں بھی ہو رہی ہیں۔
طبع شدہ رپورٹوں اور سیاسی ذرائع کے مطابق، ہالبروک کی شخصیت مسحور کن تھی لیکن بعض اوقات ان کے رویے سے لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، صدر کرزئی سے ان کی کئی بار جھڑپ ہوئی، خاص طور سے جب انھوں نے کرپشن ختم کرنے پر زور دیا۔ صدر اوباما کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جیمز جونزسے بھی ان کا ٹکراؤ ہوا۔ جنوری 2009 میں ہالبروک کوافغانستان اور پاکستان کے لیئے خصوصی نمائندہ مقرر کیا ۔ یہ ایک نیا اور بڑا پیچیدہ عہدہ تھا جس کے فرائض اور ذمہ داریاں واضح نہیں تھیں ۔ لیری گڈسن کہتے ہیں کہ ان کی قد آور شخصیت کابل اور اسلام آباد کے سفارت خانوں کے درمیان پھنس کر رہ گئی تھی۔
ان کے الفاظ ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ان کے کچھ مخصوص اختیارات تھے لیکن صورت حال وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہو رہی تھی۔ افغانستان اور پاکستانی میں امریکی سفارت خانے تھے اور ان کے درمیان امریکی سفارتکاری کی یہ عظیم شخصیت تھی جو سب پر بھاری تھی اور جسے کچھ کر دکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
ٹریسا شیفر کہتی ہیں کہ ہالبروک کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی کیوں کہ امریکہ کی افغان اور پاکستان پالیسی کے بہت سے مختلف عناصر کو انھوں نے مربوط کر رکھا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ہالبروک کے رخصت ہو جانے کا سب سے زیادہ اثر یہ ہو گا کہ امریکی حکومت کو نئے سرے سے اس پورے معاملے کو منظم کرنا پڑے گا کیوں کہ وہ بڑی طاقت ور شخصیت کے مالک تھے۔ ہر چیز پر ان کا اختیار تھا۔وہ وسائل کی تقسیم کرتے تھے، وہ ان وسائل کے استعمال کے فیصلے کرتے تھے، وہ پالیسی کے عمل کو مربوط کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سب کام کم و بیش ہوتے رہیں گے، لیکن ایسی کوئی ایک قد آور شخصیت نہیں ہوگی جو ان تمام چیزوں پر حاوی ہو۔