افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے ، رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ پاکستان میں امریکی فوجی موجودگی نہیں ہے، اور یہ کہ امریکہ کا مقصد پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔
پیر کے روز مارک گروس مین سے تفصیلی انٹرویو میں ہالبروک نے کہا کہ، ‘پاکستان میں ہماری موجودگی نہیں ہے۔ لیکن ہم وہاں اقتصادی، سیاسی اور نفسیاتی سطح پر امداد فراہم کرتے ہوئے پاکستان کو مضبوط بنا رہے ہیں۔’
انٹرویو کا اہتمام بیورو آف پبلک افیئرس نے کیا جب کہ پروگرام میں میزبانی کے فرائض معاون وزیرِ خارجہ فلپ جے کراؤلی نے کی۔
ہالبروک نے کہا کہ، ‘پاکستان کو داخلی سطح پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ یہ کوئی آسان پالیسی نہیں ہے، لیکن چونکہ ہوم لینڈ سکیورٹی اور قومی مفادات کو مدِٕ نظر رکھتے ہوئے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ وہاں پر (خطے میں) اپنی اِس موجودگی کو برقرار رکھا جائے۔’
اُن سےسوال کیا گیا کہ، افغانستان میں نسلی گروہوں، قبیلوں اور مختلف ذاتوں پر مبنی روایتی ڈھانچے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی، اعلیٰ حکام اور مرکزی حکومت اِس حد تک سکیورٹی فراہم کر سکے گی جو وہاں ملکی ترقی کے لیے درکار ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو القاعدہ یا طالبان یا اُن کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہوں۔
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں حال ہی میں رائے عامہ کے کئی جائزوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بی بی سی، اے بی سی اور جرمن نیٹ ورک آے آر ڈی کے اِن جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو القاعدہ اور اُن کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شرح سات یا آٹھ فی صد سے زیادہ نہیں ، اور وہ طالبان کی واپسی کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔
‘اور یہ تعداد بھی مخصوص مقامات پر موجود ہے۔ دوسری بات اِس سلسلے میں یہ کہ افغانستان میں ایک مرکزی حکومت کا تصور کبھی بھی نہیں رہا، لیکن بہت سے ملک یونٹوں پر مبنی ایک حکومت ، ایک وفاقی ڈھانچے کے تحت تسلیم کرتے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے سیاسی ڈھانچے کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے اُنھوں نے بے پناہ پیش رفت بھی کی ہے۔’
اِس سوال پر کہ افغانستان میں امریکی موجودگی کی وجہ کیا ہے، ہالبروک نے کہا کہ طالبان 9/11میں براہِ راست شریک نہیں تھے لیکن اُنھوں نے القاعدہ کو پناہ دی اور اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ‘اِسی وجہ سے سابق صدر بش نے اُنھیں گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں میں اعانت کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس کے بعد پاکستان جا کر دونوں طالبان اور القاعدہ نے خود کو اکٹھا کیا اور امریکی فوجوں پر حملے شروع کردیے۔’
سوات میں پاکستانی فوج کے کارروائی کے بارے میں سوال پر اُنھوں نے کہا کہ سوات کے بیشتر علاقوں کو طالبان سے پاک کرلیا گیا ہے اور جنوبی وزیرستان میں کارروائی کا آغاز کیا گیا، اور بی الاآخر امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے طالبان کے اہم لیڈروں کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔
سفیر ہالبروک نے کہا کہ پاکستان فوج کافی عرصے سے وہاں کوشش کر رہی تھی، لیکن جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں گذشتہ برس بھرپور کارروائی کی گئی جس سے بہتری کی صورت پیدا ہوئی ہے، اور پاکستان میں فوج کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
انٹرویو میں گروس مین نے پاکستان کی وادیِ سوات کے اپنے حالیہ دورے کا حوالہ دیا۔ ہالبروک نے کہا کہ گذشتہ برس جب طالبان اور القاعدہ سوات کی وادی میں آگئے تھے اور اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے، اُس وقت بھی پاکستان میں رائے عامہ اُن کی حمایت میں نہیں تھی، اور اُن کی موجودگی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
پاکستان اور امریکہ کے حالیہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں انتہائی بہتری کی بات کرتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان حال ہی میں ہونے والے اسٹریٹجک ڈائلاگ ایک بڑی پیش رفت ہے۔
رچرڈ ہالبروک نے پاکستان کو درپیش بجلی، پانی اور جوہری حریف کے ساتھ مختلف امور پر اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ پاکستان کو امریکہ کی امداد کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس سنیٹر جان کیری اورسنیٹر لوگر نے پاکستان کی امداد کے لیے قانون سازی کی تھی جس کے تحت پاکستان کو آئندہ پانچ برسوں کے دوران 7.5ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے وائیٹ ہاؤس میں پاکستان کو دی جانے والی امداد کے بارے میں ہونے والے اجلاس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس بات کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ایسے طریقوں سے پاکستان کی مدد کی جائے کہ وہ خود کو مضبوط بنائے، جمہوریت کو فروغ دے اور مغرب میں درپیش بغاوت کی مقابلہ کرسکے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان حال ہی میں ہونے والا اسٹریٹجک ڈائلاگ ایک بڑی پیش رفت ہے