'جب سر چھپانے کو چھت نہ تھی'

Your browser doesn’t support HTML5

ایک بے گھر امریکی شہری ’جون‘ کی کہانی۔۔۔ جون، جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا تھا اور جو کھلے آسمان تلے زندگی کے ٹکڑوں کو ایک بار پھر سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

منٹگمری کاؤنٹی، میری لینڈ ۔۔۔ ’جون‘ (جن کا پورا نام بوجوہ ظاہر نہیں کیا جا رہا) آج بھی اس رات کو یاد کرکے آبدیدہ ہو جاتے ہیں جب وہ جیل سے قید کاٹ کر باہر آئے تو گھر والوں نے ان سے ناتا توڑ لیا اور جون کے پاس امریکہ جیسے وسیع و عریض ملک میں سر چھپانے کو کوئی چھت نہ رہی۔۔۔

جون کہتے ہیں، "گھر والوں کی طرف سے بے دخل کیے جانے کے بعد میں ایک مقامی سٹور کے سامنے چھ، سات گھنٹے بیٹھ کر آسمان کو تکتا رہا کہ اب میرا کیا ہوگا؟ میں کہاں جاؤں گا؟"

ایسے میں ایک پولیس افسر نے جون کی مدد کی اور انہیں ایک ایسے مقامی شیلٹر ہاؤس بھیجا گیا جو بے گھر افراد کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔۔۔

امریکہ میں جون کی طرح بہت سے افراد کے لیے بے گھر ہونا ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔۔۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکہ میں بھی ایسے لوگ بستے ہیں جن کے پاس پہننے کو کپڑے جوتے، کھانے کو خوراک اور رہنے کو چھت میسر نہیں ہے۔۔۔

امریکہ میں بے گھر افراد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر ریاست میں خصوصی ’ہوم لیس شیلٹرز‘ بنائے گئے ہیں، جہاں بے گھر افراد نہ صرف اپنی زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ انہیں دنیا کے دھارے میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے بہت سے مختلف تعمیری پروگراموں میں بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ بے گھر افراد بوجھ بننے کے بجائے معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری ثابت ہو سکیں۔۔۔


جون کی کہانی مدیحہ انور کی ویڈیو رپورٹ میں ملاحظہ کیجئے۔۔۔