افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے، جو رواں برس 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ تاہم بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ عجلت میں کیے جانے والے اس اںخلا سے مبینہ طور پر طالبان کی جانب سے اغوا کیے گئے امریکی کانٹریکٹر کی رہائی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ رہا ہے۔
امریکی ریاست الی نوائے سے تعلق رکھنے والے 58 سالہ سابق نیوی اہل کار اور سول انجینئر مارک فریرکس گزشتہ برس افغان دارالحکومت کابل سے لاپتا ہو گئے تھے۔
فریرکس کی گمشدگی کے بعد امریکہ نے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے اُن کی رہائی کی کوششیں کی تھیں۔ فریرکس کے اہلِ خانہ کو خدشہ ہے کہ اگر امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو گیا تو فریریکس کی بازیابی کی اُمیدیں دم توڑ جائیں گی۔
امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی نیوز' کی رپورٹ کے مطابق بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج اور دیگر آپریشنل عملے کا انخلا چار جولائی تک بھی مکمل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اب مغوی فریرکس کی بازیابی کو یقینی بنانے کے لیے بہت کم وقت باقی بچا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکام کا کہنا ہے کہ فریرکس کو مبینہ طور پر افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک نے اغوا کیا ہے جو دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران امریکی اور برطانوی شہریوں کو اغوا برائے تاوان اور اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے یرغمال بناتے رہے ہیں۔
فریرکس کی رہائی کے لیے اب تک کیا کوششیں ہوئیں؟
'اے بی سی نیوز' کے مطابق امریکی شہری فریرکس کی رہائی کے لئے قیدیوں کی رہائی بشمول امریکہ میں قید افغان منشیات فروش حاجی بشیر نورزئی کی رہائی کا آپشن بھی موجود ہے۔
فریرکس کی رہائی کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کرنے اور رہائی کے لیے آپریشن کرنے پر بھی غور ہوتا رہا ہے۔
البتہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ افغان منشیات فروش حاجی بشیر نورزئی کو رہا کرنے کی اُمید بھی اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ حاجی بشیر 16 برس سے امریکی جیل میں قید ہیں۔ افغان طالبان متعدد بار نورزئی کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
طالبان نے دوحہ مذاکرات کے دوران بھی نورزئی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ البتہ بدلے میں فریرکس کی بازیابی کی یقین دہانی نہیں کرائی تھی۔
واضح رہے کہ امریکی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ لہٰذا فریرکس کی رہائی کے لیے وہ اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے۔
دوسری جانب فریرکس کی رہائی کے لیے ممکنہ آپریشن کے امکانات بھی ختم ہو رہے ہیں۔ آپریشن کے لیے اسپشل مشن یونٹ کے اہل کار بھی ایک ماہ قبل افغانستان سے جا چکے ہیں۔
یہ وہی اسپیشل آپریشن یونٹ ہے جس نے مئی 2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کارروائی کر کے اُسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا، جب کہ گزشتہ برس فریرکس کی بازیابی کے لیے بھی افغانستان میں ایک مقام پر کارروائی کی تھی۔
حکام کے مطابق بگرام ایئر فیلڈ اور کابل میں امریکی سفارت خانے کا کمپاؤنڈ ہی اگلے ماہ تک امریکی فوج کے کنٹرول میں رہے گا۔
لہٰذا امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ فریرکس کی رہائی کے لیے واحد آپشن پاکستان کی مدد حاصل کرنا ہی بچا ہے، جس کے لیے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی (آئی ایس آئی) پر دباؤ ڈالنے سمیت اُنہیں مراعات کی پیش کش کرنے کا آپشن بھی شامل ہے۔
بعض امریکی حکام اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ماضی میں حقانی نیٹ ورک مغویوں کو پاکستان میں رکھتے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ امکان بھی ہو سکتا ہے کہ فریرکس کو بھی پاکستان کی سرزمین پر ہی قید رکھا گیا ہو۔
'اے بی سی نیوز' کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے کی ترجمان ملیحہ شاہد نے ایک بیان میں بتایا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی یا دیگر ممالک کے مغویوں کی رہائی کے لیے ماضی میں ہر ممکن تعاون کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس عمل میں تعاون نیک نیتی اور بغیر کسی لالچ یا فائدے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ مارک فریرکس پاکستان کی سرزمین پر ہیں۔