پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان امن عمل میں کسی بگاڑ کا ذمے دار پاکستان نہیں ہو گا کیوں کہ افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی ذمے داری تمام افغان فریقوں پر عائد ہوتی ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں دو روزہ پاک، افغان غیر سرکاری مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمے دار پاکستان کو ٹھیرانا کسی صورت بھی سود مند نہیں ہو گا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان خلوصِ دل سے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوشاں ہے۔ وزیرِ خارجہ کے بقول پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہے۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر کے پاکستان مخالف بیانات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر سردمہری کا شکار ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی امریکہ جا رہے ہیں۔ لہذٰا وہ اُمید کرتے ہیں کہ یہ دورہ افغان امن عمل کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
اس بارے میں افغان حکومت کاابھی کوئی بیان سامنے آیا ہے کہ صدر اشرف غنی کب واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
البتہ، پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے یہ واضح کیا کہ افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ افغان دھڑوں نے خود کرنا ہے۔ ان کے بقول وقت تیزی سے گزر رہا ہے اس لیے افغانستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مذاکرات کو کامیاب کروا سکے۔
شاہ محمود قریشی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے جب کہ دوسری جانب گزشتہ برس افغان حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
اس صورتِ حال میں خطے کے ممالک اور بعض دیگر حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ افغان تنازع کے سیاسی تصیفے کے نہ ہونے کی صورت میں افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال بدل سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکام بار بار یہ انتباہ کر رہے ہیں کہ اگر امن عمل کو نقصان پہنچا تو اس کا ذمے دار پاکستان نہیں ہو گا۔
بین الاقوامی امور کےتجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئے خدشات نہیں ہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ پاکستان اپنے مفادات کے لیے مبینہ طور پر افغان طالبان کی حمایت کرتا رہا ہے۔
نجم رفیق کا کہنا ہے کہ یہ خدشات بجا ہیں کہ اگر افغانستان میں امن مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا ذمے دار پاکستان کو ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان پر یہ الزام آئے گا کہ پاکستان نے افغان تنازع کے حل کے لیے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔
لیکن نجم رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ محدود ہے اور طالبان اپنے فیصلے بغیر کسی بیرونی دباؤ اور اثرو رسوخ کے کرتے ہیں۔
تاہم پاکستان کے وزیرِ خارجہ قریشی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا واضح فیصلہ کر چکا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ (افغانستان میں ) ہمارا کوئی پسندیدہ (گروپ) نہیں ہے۔ ان کے بقول عمومی تاثر یہ ہے کہ ہم طالبان کے حامی ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے مختلف حلقوں کے نمائندوں کو اسلام آباد مدعو کر کے یہ واضح پیغام دے چکا ہے کہ ہم تمام افغان دھڑوں کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں جو افغان امن و مصالحت کے عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔