موسمِ سرما میں کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور اُن کے دو غیر ملکی ساتھیوں سے تین روز گزر جانے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہو سکا جس کے بعد اُن کے زندہ بچ جانے کی اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ آج موسم بہت زیادہ خراب ہے۔ ہیلی کاپٹرز بلند پراوزیں نہیں کر سکیں گے۔
اُن کے بقول علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ اپنے علاقے میں پہنچ چکے ہیں اور وہی اپنے والد کے بارے میں کوئی باضابطہ خبر شیئر کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ علی سدپارہ پاکستان کے قومی ہیرو ہیں۔ وہ مزید چوٹیاں سر کرنا چاہتے تھے اور ان کا اگلے سال ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا ارادہ تھا۔
کرار حیدری کا مزید کہنا تھا کہ سرچ آپریشن جاری رہے گا اور ان کی کوشش ہو گی کہ ہیلی کاپٹرز جتنی حد تک جا سکتے ہوں وہ اڑان بھریں۔ لیکن کوہ پیماؤں کی زندگی کے بارے میں امیدیں ماند پڑ رہی ہیں۔
ادھر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش میں لاپتا ہونے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ سکردو پہنچ چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ساجد سد پارہ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد علی سدپارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو مور چوٹی سر کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ آخری مرتبہ انہوں نے انہیں باٹل نیک کراس کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
ساجد کا مزید کہنا تھا کہ باٹل نیک کراس کرنے کے بعد سب کچھ آسان ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ واپسی پر کوئی حادثہ ہوا ہو گا۔ کیوں کہ اس دوران موسم خراب ہونا شروع ہو گیا تھا
Your browser doesn’t support HTML5
ساجد سد پارہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جمعے کی رات ان سمیت چار کوہ پیماؤں نے جب کے ٹو کو سر کرنے کا سفر شروع کیا تو 8200 میٹرز کی بلندی پر پہنچنے پر ان کی آکسیجن متاثر ہو رہی تھی۔ دوسری جانب ان کی ذہنی کیفیت بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے ان کے والد نے انہیں نیچے جانے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نیچے جا کر انہوں نے دیگر ساتھیوں کا انتظار کیا تاکہ سمٹ کرنے کے بعد ان کے لیے پانی وغیرہ کا اہتمام کر سکیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
ان کا کہنا ہے کہ جمعے کی دوپہر ان کے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں نے باٹل نیک سے اپنی مہم آگے کی جانب شروع کی اور شام چھ بجے کے قریب ان کا سیٹیلائٹ سیٹ کچھ سیکنڈز کے لیے آن بھی ہوا جس کے فوری بعد سگنلز غائب ہو گئے۔
اُن کے بقول شدید سردی کی وجہ سے فون کی بیٹریاں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں۔ بیس کیمپ کا ٹیم کے ساتھ اس لیے بھی رابطہ ممکن نہیں تھا کیوں کہ واکی ٹاکی سیٹ اُن کے پاس تھا۔
ہفتے اور اتوار کو آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سات ہزار میٹر کی بلندی تک لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس سرچ آپریشن میں سیون سمٹ ٹریکس کمپنی کے منیجر داوا شرپا، مقامی چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ تاہم تلاش کے باوجود لاپتا کوہ پیماؤں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ساجد سد پارہ کا کہنا تھا کہ اگر کے ٹو کی تاریخ دیکھی جائے تو 90 فی صد سے زائد کوہ پیماؤں کے ساتھ حادثات تب ہوتے ہیں جب وہ نیچے کی جانب سفر شروع کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔
ساجد کے مطابق ان کی صحت اب بہتر ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ اپنے ایک رشتہ دار کے گھر قیام پذیر ہیں اور شام تک اپنے گھر کی جانب سفر کی کوشش کریں گے لیکن انہیں اپنے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں کی فکر لاحق ہے۔
یاد رہے کہ دسمبر کے وسط میں تقریبا 18 ممالک سے 60 کوہ پیماؤں نے موسمِ سرما میں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کو سر کرنے کے لیے ڈیرے ڈالے۔
16 جنوری کو دس نیپالی کوہ پیماؤں نے نرمل پُرجا کی قیادت میں تاریخ رقم کی اور پہلی مرتبہ موسمِ سرما میں کے ٹو کو سر کیا جس کے بعد علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سد پارہ کے ہمراہ ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے لیکن موسم کی خرابی کے باعث انہیں بیس کیمپ میں اترنا پڑا۔
کے ٹو کا شمار دنیا کے سب سے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ اب تک اسے سر کرنے کی کوشش میں 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ کوہ پیما بھی گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی ہلاکت بیس کیمپ کی جانب رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی۔