افغان طالبان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہے۔ دورے کا مقصد افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس ویسٹ سمیت مختلف غیر ملکی شخصیات سے ملاقاتیں کرنا ہے۔
ان ملاقاتوں کا مقصد کیا ہے؟ اور فریقین ان سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا فریقین کے مقاصد قابلِ حصول ہیں؟ ہم نے عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر حسین یاسا، ایک افغان صحافی اور تجزیہ کار ہیں جو جرمنی میں مقیم ہیں۔ دوحہ میں ہونے والی ان ملاقاتوں کے سلسلے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فریقین کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں جن کا وہ اظہار کرتے رہتے ہیں۔
طالبان اور عالمی برادری کیا چاہتے ہیں؟
طالبان کے بڑے مطالبات یہ ہیں کہ انہیں افغانستان کی جائز حکومت کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ ان کے مرکزی قومی بینک کے جو اثاثے امریکہ اور دوسرے ملکوں میں منجمد ہیں۔ ان پر سے پابندی ہٹائی جائے اور عالمی امداد کی بحالی بڑے پیمانے پر کی جائے۔
دوسری جانب امریکہ، اس کے اتحادی اور دوسرے ممالک ہیں جن کے اپنے مطالبات ہیں اور یہ مطالبات ناجائز بھی نہیں ہیں جیسے کہ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عالمی دہشت گردوں کی سرکوبی ہونی چاہیے اور ان کی کسی طور معاونت نہیں ہونی چاہیے۔
عالمی برادری کے خدشات ہیں کہ طالبان کی صفوں میں اب بھی مشکوک لوگ موجود ہیں جس کی وجہ سے حقوق انسانی، خاص طور سے خواتین کے حقوق کی پاسداری کی راہ میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دنیا کا ایک اور بڑا مطالبہ ایک جامع حکومت کا قیام ہے یعنی ایسی حکومت جس میں افغانستان میں آباد تمام طبقات کی نمائندگی ہو جب کہ طالبان کی تمام طبقات کی نمائندگی کی تشریح مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان ہی امور پر ملاقات کے اس دور میں تبادلۂ خیال متوقع ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ متنازع امور پر ابھی تک طالبان کے رویے میں کوئی لچک دیکھنے میں نہیں آئی ہے اس لیے وہ اس بات چیت سے کوئی بڑا نتیجہ برآمد ہونے کی توقع نہیں رکھتے۔
طالبان کے منجمد اثاثوں کی بحالی افغان معیشت کے لیے کتنی ضروری ہے؟
جہانگیر خٹک کا تعلق نیو یارک سٹی یونیورسٹی سے ہے۔ وہ عالمی اُمور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دوحہ مذاکرات بہت اہم ہیں۔ کیوں کہ طالبان اپنی حکومت کو تسلیم تو کرانا ہی چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت ان کے لیے اس سے بھی بڑا مسئلہ امریکہ وغیرہ میں ان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرانا ہے۔
جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ اس وقت افغان معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور اگر طالبان افغانستان میں کمزور ہوتے ہیں تو وہاں دہشت گرد مضبوط ہوں گے۔ اور مغرب کے پاس افغانستان میں داعش جیسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف لڑنے کے لیے طالبان کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔
اُن کے بقول امریکہ اور دوسرے ملکوں میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ طالبان کی کمزوری داعش کی قوت کا سبب بنے گی اور داعش مضبوط ہو گی تو افغانستان اور خطے کے لیے ہی نہیں پوری دنیا کے لیے خطرہ پیدا کر دے گی۔ اور یہ خطرہ کوئی بھی مول لینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
جہانگیر خٹک کے بقول "وہ سمجھتے ہیں کہ شاید طالبان کو بعض شرائط کے ساتھ ان کے منجمد فنڈز میں سے اتنی رقم مل جائے۔ جس سے ڈوبتی ہوئی افغان معیشت کو کچھ سہارا مل جائے اور طالبان اتنے کمزور نہ ہوں کہ داعش ان پر حاوی ہو جائے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں طالبان کی کوئی بہت مضبوط پوزیشن نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر وہ اپنے پیسے حاصل کرنے میں ناکام ہوئے تو اس کا الزام تو ان ہی پر لگے گا۔ اس لیے کہ امریکہ ان کے پیسے دینے سے انکاری تو نہیں ہے۔ اس کی کچھ شرائط طالبان کو پوری کرنی ہیں اور اسے کچھ قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں۔
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر پیش رفت ہو سکتی ہے؟
اسی طرح طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا بھی مسئلہ ہے، کیونکہ امریکہ اور دوسرے ممالک کا واضح مؤقف ہے کہ طالبان ایسی پالیسیاں اختیار کریں کہ دنیا یہ تسلیم کر لے کہ وہ درست راستے پر ہیں۔ اور ان حالات میں خود طالبان پر بھی اندرونی سطح پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے فریقین کو اپنی ضرورتوں کے مطابق کسی سمجھوتے کے لیے آخر کار آمادہ ہونا پڑے گا۔
اس پس منظر میں اگر دوحہ بات چیت کو دیکھا جائے تو یہ تو کہا جا سکتا ہے۔ کہ یہ بہت اہم ہے لیکن اس کے کوئی قابلِ ذکر نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون سا فریق اپنی ضروریات کے لحاظ سے کس حد تک کسی سمجھوتے پر آمادہ ہوتا ہے۔