پاکستان نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جزبہ خیر سگالی کے طور پر بھارت کی جانب سے واہگہ بارڈر کے ذریعے 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور زندگی بچانے والی ادویات کی نقل و حمل کی اجازت دی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے افغان شہریوں کے لیے آن لائن پاکستانی ویزہ کے اجرا کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی حکومت پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ واہگہ بارڈر کو بھارت کی طرف سے امداد اور تجارت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے۔ تاہم اسلام آباد کی جانب سے اس معاملے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ رہی تھی۔
واضح رہے کہ افغانستان بھارت کے ساتھ زمینی راستے سے براہِ راست تجارت نہیں کر سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مخدوش سیاسی حالات ہیں۔
پاکستان ہمسایہ ملک کی حیثیت سے افغانستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے نہ صرف خود پیش پیش ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں کر رہا ہے۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں بحران کی شدت پاکستان پر براہِ راست اثر انداز ہو سکتی ہے۔
افغان شہریوں کے لیے آن لائن ویزہ کا اجرا
اسلام آباد میں قائم افغان سفارت خانے کی جانب سے بدھ کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ "آٹھ برس تک کی عمر کے بچوں کو بغیر پاسپورٹ اور ویزہ طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دے جائے گی۔"
اس سے قبل پاکستان میں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط ایک برس سے کم عمر کے بچوں پر لاگو تھی۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس اجازت نامے کو حقیقی معنوں میں 'ناقابل عمل 'قرار دیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے صدرِ پاکستان عارف علوی اور وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کے نام ایک کھلے خط میں بتایا کہ وزیر اعظم کے اعلانات کے برعکس، سرحد پر نقل و حرکت پر نئی اور بے جا پابندیوں کی بدولت افغان شہری بے یار و مددگار خوار ہو رہے ہیں۔
خط کے مطابق قواعد و پالیسی کا مکمل فقدان غیر منصفانہ ہے اور اس سے حالات میں توازن قائم ہونے کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھے گا۔
اس وقت افغان شہری زمینی راستوں چمن اور طورخم کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
افغان حکومت اور عوام نے بارڈر پر فرائض انجام دینے والے افراد کے نامناسب رویے کی متعدد بار شکایتں کی ہیں۔ جب کہ ایک موقع پر طالبان نے شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کی بنیاد پر چمن بارڈر کو بند بھی کیا تھا۔
حکومتِ پاکستان کے افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ساز و سامان کی فراہمی کے فیصلے پر مبصرین کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ بلاشبہ افغانستان کے لیے امداد، انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو گی لیکن حکومت کی اولین ترجیح پاکستان میں رہائش پزیر افغان شہریوں کی بہتری سے متعلق جامع اقدامات ہونے چاہیئں۔
افغانستان اس وقت سنگین معاشی بحران کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایلچی برائے افغانستان نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کی معاشی تباہی کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمِ سرما میں افغان عوام کی مشکلات مزید سنگینی اختیار کر سکتی ہے۔
اس ضمن میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری افغانستان کی ہنگامی صورتِ حال کا نوٹس لے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہر ممکن مدد کے لیے اقدامات اٹھائے۔
ایچ آر سی پی کے خط میں مزید بتایا گیا ہے کہ تاریخی طور پر پارلیمان نے افغان مہاجرین کی صورتِ حال پر کبھی بھی گفتگو نہیں کی۔ اور یوں یہ معاملہ فوج کی عمل داری میں آ گیا جہاں پالیسیاں خفیہ طریقہ کار کے تحت ہی تشکیل پاتی رہی ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ اس معاملے پر عوامی بحث و مباحثے کو یکسر رد کیا گیا اور خفیہ بریفنگز کا اہتمام ہوتا رہا ہے جو ایچ آر سی پی کے خیال میں ناقابلِ قبول ہیں۔
ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان عوام کی سہولت کے پیشِ نظر افغان شہریوں کے لیے ویزے سے متعلق درپیش مشکلات کو بڑی حد تک حل کر لیا گیا ہے۔ تاہم افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ ویزے اب بھی آسانی سے نہیں مل رہے ہیں۔
'سفارت خانے میں اب کوئی براہ راست نہیں جا سکتا'
افغانستان کے صوبہ خوست کے اکبر منگل کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکام نے افغان شہریوں کے لیے ویزہ کے اجرا میں کافی آسانی پیدا کر دی ہیں۔ اور اب وہ ویزے کے لیے آن لائن درخواست دے سکتے ہیں۔
لیکن افغانستان میں انٹرنیٹ کی سہولت ہر جگہ میسر نہیں ہے جب کہ سروس جہاں میسر بھی ہے تو ہت کمزور ہے۔
ان کے بقول تعلیم کی شرح میں کمی کی وجہ سے بھی مقامی شہریوں کو آن لائن ویزے کے لیے درخواست درج کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اکبر منگل کا مزید کہنا تھا کہ سفارت خانے میں اب کوئی براہ راست نہیں جا سکتا ہے جب کہ آن لائن ویزے کے لیے اپلائی کرنے کے بعد اس عمل میں کم از کم ایک مہینہ درکار ہوتا ہے جسے تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان نے افغان شہریوں کی پاکستان آنے کی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آن لائن ویزہ سروس کا اجرا کیا ہے۔
افغان شہریوں کی مہاجر پالیسی پر اب بھی سختی سے عمل ہو رہا ہے تاہم محدود مدت اور علاج معالجے کی غرض سے افغان شہریوں کو ویزے فراہم کیے جا رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں تقریبا 30 لاکھ کے قریب افغان باشندے رہائش پذیر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی کل تعداد 14 لاکھ ہے جب کہ نو لاکھ کے قریب کارڈ رکھنے والے افغان شہری بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے افراد بھی رہائش پزیر ہیں جو بغیر کسی دستاویز کے عرصہ دراز سے یہاں رہ رہے ہیں۔
افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان نے نئے مہاجرین کو ملک میں لانے سے انکار کیا ہے۔ تاہم پھر بھی بڑی تعداد میں افغان شہری پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب کچھ عرصہ قبل چمن بارڈر پاکستان آنے والی افغان شہری حلیمہ امین کا کہنا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں بسنے والے عوام شدید معاشی تنگ دستی کا شکار ہیں۔
ان کے بقول وہ بھی افغان ہیں اور وہ بھی امداد کی حقدار ہیں کیوں کہ جان بچانے کی غرض سے بے سر و سامان لوگوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے اور ان کا یہاں کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔